افغانستان میں طالبان حکومت تشکیل دینے میں مصروف ہیں اور کئی اہم وزارتوں کیلئے نگرانوں کااعلان بھی کیاگیا ہے۔اب اداروں کو از سر نو منظم کرنے کا اہم مرحلہ درپیش ہوگا۔جن میں افغان قومی فوج کی تشکیل نو بھی شامل ہے۔ یہاں طالبان کے اگست میں تیزی کے ساتھ پورے ملک پر قبضہ کرنے اور افغان فورسز کی کمزوری کی باز گشت اب بھی جاری ہے۔کیونکہ کابل ائرپورٹ پر داعش کے حملوں نے جہاں امریکہ کو بھاری نقصان پہنچایا وہاں اس حقیقت کو پھر آشکارا کیا کہ اگر امریکی عجلت میں انخلاء نہ کرتے اور افغان فوج طالبان کا امریکی انخلاء تک کم از کم مقابلہ کرتی تو یہ انجام نہ ہوتا۔امریکہ اور نیٹو حیران اور پریشان ہیں کہ انہوں نے افغان فوج کو بیس سال تک تربیت دی جب ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے امتحان کا وقت آیا تو وہ ایک گولی چلائے بغیر طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالتے رہے۔ کچھ دن قبل پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ڈاکٹر عمر زاخیل وال نے افغان فورسز کی پسپائی کی اصل وجہ بتادی ہے۔ عمر زاخیل وال نے انکشاف کیا کہ سابقہ افغان صدر اشرف غنی نے سرکاری وسائل صرف اپنی تشہیر کیلئے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خرچ کیے وہ خود کو افغانستان کا سب سے بڑا لیڈرگردانتا تھاانہوں نے بدانتظامی، طاقت کے غلط استعمال، آئین کی خلاف ورزی اور سیاسی سازشوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیا اور امن کے کئی مواقع ضائع کیے۔ اس کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسز کنفیوژن کا شکار ہوگئیں کہ وہ ریاست کی بقا ء کیلئے لڑرہی ہیں یا اشرف غنی کے اقتدار کو طول دینے کیلئے مہرے کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ حکومت انہیں ریاست کے مفاد کے بجائے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہے تو انہوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی ٹھان لی اور طالبان کیلئے میدان خالی کردیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کابل انتظامیہ 80ہزار افغان فوجی افسروں اور اہلکاروں کی تنخواہیں بھی امریکہ سے سات سال تک وصول کرتا رہا۔ جن کا افغان سرزمین پر کوئی وجود نہیں تھا۔ اشرف غنی نے اپنے چاروں اطراف میں جو سیکورٹی حصار قائم کیا تھا وہ وقت آنے پرریت کی دیوارثابت ہوا۔کابل حکومت کی سب سے سنگین غلطی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کرنا تھا۔ شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کہ امریکہ اس سے مشاورت کے بغیر افغانستان سے فوجی انخلاء کا اعلان کرے گا۔اور پھر راتوں رات امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ امریکہ کی مجبوری یہ تھی کہ وہ ایک لاحاصل جنگ میں اپنی توانائیاں اور وسائل مزید ضائع کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ کیونکہ امریکی ٹیکس دہندگان حکومت سے سوال کر رہے تھے کہ ملک کی اپنی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے اور ٹیکسوں کے پیسے افغانستان اور عراق میں ضائع کئے جارہے ہیں۔ دو کھرب ڈالر ضائع کرنے کے بعد امریکہ کو افغانستان میں فوجی مداخلت کی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے کابل حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر فوجیں وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ جب کابل حکومت کا دفاع کرنے والی غیر ملکی افواج واپس چلی گئیں تو آسمان سے گرنے والا اشرف غنی کھجور میں اٹک گیا۔ امریکہ اور یورپ کے علاوہ بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر لگائے تھے۔مگر وہ رقم حکمرانوں کی جیبوں میں چلی گئی اور افغان عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ افغان عوام کو اشرف غنی حکومت پر اعتماد نہیں رہا تھا اور جب طالبان نے پیش قدمی شروع کی تو لوگ ان کا والہانہ استقبال کرنے لگے۔ اور افغان فورسز نے بھی پسپائی اختیار کرکے طالبان کو مزاحمت کے بغیر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ جب افغان فورسز کے ڈیڑھ ہزار اہلکار تاجکستان فرار ہوگئے تو کابل حکومت کا تخت ہلنے کے آثار دکھائی دینے لگے تھے۔ سینکڑوں افغان فوجیوں نے چترال، باجوڑ اور طورخم کے مقام پر پناہ کی تلاش میں خود کو پاکستانی حکام کے حوالے کردیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ متعدد افغان صوبوں میں سیکورٹی فورسز سرکاری اسلحہ سمیت طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔ اس دوران بھی افغان حکومت یہی کہتی رہی کہ افغان قومی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور چند سرحدی صوبوں کے علاوہ طالبان زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ افغان فوج جدید اسلحے سے لیس ہے اور ان کی تعداد بھی طالبان کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے اس کے ساتھ ساتھ افغان حکومت امریکہ کی طرف سے دی گئی فوجی تربیت کو بھی اہم عنصر قرار دیتی رہی تاہم حالات یکسر مختلف نظر آئے اور افغان قومی فوج رفتہ رفتہ پورے ملک سے سمٹ کر کابل تک محدود ہوگئی تھی اس لئے یہ خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہا کہ اب کابل کا سقوط جلد ہونے کو ہے۔ طالبان کا چند ہفتوں میں افغانستان کی توپ و تفنگ،ٹینکوں اور جنگی طیاروں سے سرکاری فوج کو شکست سے دوچار کرنا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جنگیں جذبے، حوصلے اور کسی نصب العین کیلئے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔