وفاقی حکومت نے ملک بھر میں چینی، گندم، دودھ،گوشت اور دالوں سمیت50 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کنٹرول کرنے، ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کوروکنے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے‘ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو قیمتوں پر کنٹرول کیلئے کنٹرولر جنرل کے اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں‘وزارت صنعت و پیداوار نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پرائس کنٹرول، ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ اندوزی روکنے کے ایکٹ 1977 کے تحت آرڈر 2021 کا نوٹی فیکشن جاری کردیاہے جس کا اطلاق فوری طور پر ہوگا‘سرکاری اعلامیہ کے مطابق چینی اور گندم کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے سیکرٹری کو دیا گیاہے‘خوردنی تیل، چائے، گوشت، سیمنٹ، موٹرسائیکل، سائیکل، ٹرک، ٹریکٹرز، فروٹ جوسز، مشروبات، فیس ماسک، آکسیجن سلنڈرز اور ہینڈ سینٹائزر سمیت 15 اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار وفاق کی سطح پر متعلقہ وزارت کے سیکرٹری کے پاس ہوگا‘ دودھ، پیاز، ٹماٹر، دالوں، گوشت، انڈے، روٹی، نان اور نمک سمیت 33اشیا کی قیمتیں مقرر کرنے کے اختیارات صوبائی سطح پر سیکرٹری صنعت کو دیئے گئے ہیں‘اعلامیہ کے مطابق کنٹرولر جنرل درآمد کنندگان،ڈیلرز اور پروڈیوسرز سے ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں کے حوالے سے رپورٹ طلب کرسکیں گے‘ کنٹرولر جنرل کے پاس ازخود نوٹس، چھاپہ مارنے، دکانوں اور گوداموں میں داخل ہونے کا اختیار ہوگا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پوری دنیا میں 10 سال کی بلندترین سطح پر ہیں‘ امریکہ، کینیڈا، ہالینڈ، ناروے، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں‘ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے‘ان کا کہنا ہے کہ زرعی پیداوار بڑھا کر قیمتوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے‘مگر یہ بات وزیرخزانہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘کاشت کاروں کو کھاد، بیج، زرعی ادویات،مشینری کی خریداری، ٹیوب ویلوں کی تنصیب اور پیداوار کو کھیتوں سے منڈیوں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرنی ہوتی ہے‘بنجر اراضی کو قابل کاشت بنانے کیلئے ڈیم اور نہریں نکالنی پڑتی ہیں اور یہ چند ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں‘کمرتوڑ مہنگائی نے عوام کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا دوبھر کردیا ہے‘ حکومت کی طرفسے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ کو اختیارات تفویض کرنا اورنرخون کا تعین کرنے کی ذمہ داری سرکاری اداروں کو سونپنا خوش آئند ہے‘ تاہم بنیادی مسئلہ نرخنامے پر عمل درآمد کرانا ہے‘ صوبائی اور ضلعی سطح پر پرائس کمیٹیوں کے نام سے نرخنامے تو بلاناغہ جاری کئے جاتے ہیں مگر سرکاری نرخ نامے اور برسرزمین قیمتوں میں آسمان و زمین کا فرق ہوتاہے‘پرائس کمیٹیوں کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کا اختیار ہے نہ ہی ان کے پاس فورس ہے‘مجسٹریسی نظام کے خاتمے کی وجہ سے تھوک اور پرچون فروش شتر بے مہار ہوچکے ہیں وہ اپنی مرضی کے پرائس ٹیگ لگا کر چیزیں بیچتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام کو موجودہ صورتحال میں فوری ریلیف چاہئے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے اور ان کی کڑی نگرانی سے مہنگائی پر قابو پانے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ تاہم مہنگائی کی بنیادی وجوہات کے تدارک پر بھی حکومت کو توجہ دینی ہوگی۔