افغان قیام ِامن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال سے کے منفی اثرات سرحد کے اِس جانب یعنی پاکستان میں بھی آ رہے ہیں‘ باجوڑ میں واقع فوجی چوکی پر دہشت گردوں کے حملے (فائرنگ) کے نتیجے میں پاک فوج کے دو جوانوں کی شہادت قربانی کا وہ تسلسل ہے‘ جس میں اَسی ہزار سے زیادہ شہیدوں کے نام درج ہیں‘ وطن کیلئے جان قربان کرنے والوں کو جس قدر بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہوگا‘ افغان مسئلے کا مستقل حل صرف اُسی صورت ممکن ہے جب بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے تمام فریقوں کو ساتھ بٹھا کر مذاکرات کریں اور افغان فریقین کو پابند بنایا جائے کہ وہ افغان سرزمین کسی بھی طرح کسی بھی ہمسایہ یا دوسرے ملک کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ افغانستان میں امن و امان کے قیام اور سابقہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے راستہ ہموار کرنے کے حوالے سے پاکستان کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ خود امریکی انتظامیہ بھی اِن کا بارہا اعتراف کرچکی ہے کہ افغان امن عمل کے سلسلے میں پاکستان نے مثبت کردار ادا کیا اور پاکستان کی مدد و معاونت اور حمایت کے بغیر معاملات کو سہولت سے آگے نہیں بڑھایا جاسکتا تھا‘ جس میں امریکہ و اتحادی ممالک کی افواج کا باعزت انخلأ بھی شامل ہے۔افغان امن عمل میں جو رخنہ اندازی ہوئی یا ہورہی ہے اس میں کئی ممالک اور غیر ریاستی عناصر اپنا اپنا منفی کردار ادا کررہے ہیں‘ لہٰذا پاکستانی سکیورٹی اداروں کو مستعد رہنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ نے افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر خوراک کی فراہمی کیلئے پاکستان سے مدد طلب کی ہے اور پاکستان نے کہا ہے کہ کہ وہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کو بھرپور معاونت کرے گا۔ عالمی ادارہئ خوراک افغانستان میں خوراک کی فراہمی کیلئے اپنے معاملات کو پاکستان میں بیٹھ کر چلائے گا۔ اس حوالے سے سول ایوی ایشن اتھارٹی نے فوڈ سپلائی آپریشنز کی مشروط اجازت دی ہے‘ اعلامیے کے مطابق امدادی پرواز میں فوجی سامان لے جانا منع ہوگا۔ عالمی ادارہئ خوراک کو ان آپریشنز کیلئے فیس ادا کرنی ہوگی۔ کسی بھی قسم کا اسلحہ اور کیمیکل پرواز میں نہیں جائے گا۔ افغانستان بھیجے جانے والا امدادی سامان کی تفصیلات پیشگی دینی ہوں گی۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ دو افراد پر مشتمل پرواز اسلام آباد سے روزانہ کابل کیلئے روانہ ہو گی اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے چھ افراد پشاور سے خوراک لیکر کابل جائیں گے‘ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اور امریکہ سمیت کئی ممالک افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان سے مدد مانگتے ہیں اور پاکستان کے کردار کے معترف بھی ہیں لیکن ان کی جانب سے پاکستان کو اس سلسلے میں خاطر خواہ امداد فراہم نہیں کی جاتی‘ سال دوہزار ایک سے اب تک گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان نے امریکی اور اتحادیوں فوجوں کا اپنی استطاعت و سکت سے زیادہ ساتھ دیا اور اس حوالے سے بہت زیادہ نقصان بھی اٹھایا لیکن بدلے میں جو کچھ اسے ملا وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق تھا‘ماضی کے تجربے نے یہ ثابت کیا کہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری پاکستان کو قربانی کا بکرا سمجھ کر آگے کردیتے ہیں اور خود پیچھے بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں‘ اس سب کی وجہ سے بدگمانی کی ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جو پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کیلئے اندرون ملک مشکلات کا باعث بنتی کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کیلئے عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری پاکستان کو بہلا پھسلا کر آمادہ تو کر لیتی ہے لیکن پھر جب اس وجہ سے پاکستان کو مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کوئی بھی اس کا ساتھ دینے کیلئے آگے نہیں آتا۔ افغانستان کی ہر ممکن سے زیادہ مدد انسانی جذبے کے تحت کرنے میں حرج نہیں کہ ہمسایہ ہی کو ہمسائے کے کام آتا ہے اور کام آنا بھی چاہئے لیکن اِس مرحلے پر افغانستان میں پائیدار قیام امن کی کوششوں میں بھی عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہئے جن کی فکرمندی کا زوایہ محدود (یک قطبی) ہے۔ ذہن نشین رہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغانستان کی امداد جس قدر بھی کی جائے یہ ناکافی رہے گی جب تک کہ عالمی برادری وہاں کے مسئلے (قیام امن) کے سلسلے میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لیتی اور تباہ حال افغانستان کو اِس نہج (مقام) تک پہنچانے کی کم سے کم اخلاقی ذمہ داری قبول نہیں کی جاتی‘ امن کے بغیر افغانستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن اور نظام مملکت استوار نہیں کیا جا سکے گا جبکہ مرحلہ اس دشمن کا بھی ہے جو بھیس بدل بدل کر اور چھپ کر یہاں پر امن کے قیام کو ممکن نہیں بنانے دے رہا‘ بھارت کے حوالے سے اب شک نہیں رہا کہ وہ افغانستان میں امن کا دشمن ہے اور چاہتا ہے کہ یہاں پر خانہ جنگی برقرار رہے تاکہ اسے پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کو عملے جامہ پہنانے کا موقع ملتا رہے۔