صوبائی محکمہئ صحت نے خیبرپختونخوا میں ایک دن کے دوران پچیس اموات اور 549 نئے کورونا کیسز منظرعام پر آنے کے بعد ہنگامی اقدامات کئے ہیں اور چونکہ آبادی کے لحاظ سے بڑا ضلع پشاور متاثرہ علاقوں میں سرفہرست ہے اِس لئے پشاور کے 5 مختلف حصوں میں روزمرہ معمولات پر جزوی پابندیاں (سمارٹ لاک ڈاؤن) عائد کیا ہے کیونکہ کورونا وبا کے پھیلنے کو باوجود کوشش بھی روکا نہیں جا سکا ہے۔سمارٹ لاک ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ چند علاقوں میں آمدورفت (چہل پہل) پر پابندی عائد کر دی جائے اور وہاں کے رہنے والے (باسی) تاحکم ثانی اپنی اپنی رہائشگاہوں تک محدود رہیں جبکہ بنیادی ضروریات زندگی کے علاؤہ انہیں گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ سمارٹ لاک ڈاؤن فیصل کالونی (دلہ زاک روڈ)‘ گل آباد چوک‘ غریب آباد اور حیات آباد کے سیکٹر ایف اور سیکٹر چھ میں لگایا گیا ہے۔ فقیرآباد کے علاقے پوسٹ آفس روڈ‘ زریاب کالونی میں یوسف آباد روڈ‘ الائیڈ بینک روڈ‘ اعجاز آباد کی نمرہ سٹریٹ‘ ذوالفقار سٹریٹ اور شہزاد سٹریٹ پر ڈپٹی کمشنر پشاور کی ہدایات پر پابندیاں (سمارٹ لاک ڈاؤن) نافذ کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا پھیلنے کے عمل کو روکا جا سکے۔ اِن پابندیوں کے اطلاق سے کتنا فائدہ ہوگا اور اِس کے مقاصد کس قدر حاصل ہوسکیں گے اِس بات کو اُن مراعات سے سمجھا جا سکتا ہے جو سمارٹ لاک ڈاؤن والے علاقوں کے رہنے والوں کو دی گئی ہیں پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ کورونا وبا کسی ایک علاقے یا شہر و مضافاتی علاقوں کے کسی خاص حصے تک محدود نہیں بلکہ جہاں کہیں اور جب کبھی بھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کی جاتی ہے تو اِس کے نتائج توقعات سے زیادہ سنگین برآمد ہوتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ بخوبی جانتی ہے کہ 215 مربع کلومیٹرز پر پھیلے پشاور کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں جہاں کورونا وبا سے احتیاطی تدابیر (SOPs) پر پوری طرح (کلی) عمل درآمد ہوتا ہو۔ اہل پشاور کی اکثریت کو اِس بات کا احساس ہی نہیں کہ جس وبا کو وہ اہمیت نہیں دے رہے اُس کی نئی شکل (ڈیلٹا وائرس) اٹھارہ سال اور اِس سے کم عمر بچوں کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ (خدانخواستہ) بھاری جانی نقصانات کی صورت نتیجہ ظاہر ہوگا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کا نفاذ اہل پشاور کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے تاکہ کورونا وبا سے خبردار رہا جائے۔ تصور کریں کہ خیبرپختونخوا میں کورونا سے مرنے والوں میں 69 طبی و معاون طبی عملہ بھی شامل ہے۔ کورونا وبا کی جاری لہر میں جرثومے کی جس نئی قسم (ڈیلٹا‘ الفا اور بیٹا وائرسیز) سے سامنا ہے‘ اُن کی شناخت کیلئے تجزئیات کی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ مثال کے طور پر صوابی سے ڈیلٹا قسم کے وائرس کے 7 کیسز سامنے آنے کے بعد اُسے ”انتہائی حساس ضلع“ قرار دیا گیا لیکن پشاور میں ایسے درجنوں کیسز ثابت ہو چکے ہیں اور چونکہ ہر کورونا کیس میں ’ڈیلٹا‘ کی جانچ و تصدیق نہیں کی جا رہی کیونکہ یہ ایک مہنگا عمل ہے اِس لئے درست اِعدادوشمار دستیاب نہیں البتہ علامات ظاہر ہیں کہ ’ڈیلٹا وائرس‘ سے متاثرین لمبے عرصے تک مصنوعی آلات تنفس کے سہارے زندہ رہتے ہیں اور وہ عمومی ادویات جو کورونا کی دیگر اقسام میں کارگر ثابت ہوتی ہیں‘ ڈیلٹا کی صورت مؤثر نہیں ہوتیں۔ کورونا وائرس کی کوئی بھی قسم ہے‘ اِس سے انسانی جسم کا مدافعاتی سمیت تنفس کے نظام لمبے عرصے تک متاثر رہتے ہیں۔