الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات دو مرحلوں میں کرانے کی تجویز دیدی ہے۔میدانی علاقوں میں دسمبر اورپہاڑی علاقوں میں مارچ میں بلدیاتی انتخابات کرانے پر غور کیا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا حکومت سے 31اگست تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول طلب کیا تھا۔ صوبائی حکومت نے کابینہ سے مشاورت کیلئے الیکشن کمیشن سے مہلت طلب کی۔ الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کو ایک یا دو مرحلوں کی بجائے تین مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی تجویز دی ہے، الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ بیک وقت پورے صوبے میں انتخابات کرانے کیلئے صوبائی حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی پولنگ عملے کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں، اس لیے انتخابات دو یا تین مرحلوں میں کرانا زیادہ قابل عمل اور مناسب ہوگا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کورونا کی صورتحال کے پیش نظر بلدیاتی انتخابات اگلے سال مارچ تک ملتوی کرنے کی تجویز الیکشن کمیشن کے سامنے رکھی تھی۔ تاہم الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ آئینی مدت گزرنے کے بعد بلدیاتی انتخابات میں مزید تاخیرآئین کے منافی ہوگی الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کے درمیان بلدیاتی انتخابات دسمبر میں کرانے پر اتفاق ہونے کا امکان ہے۔ پہلے مرحلے میں میدانی علاقوں اور دوسرے مرحلے میں پہاڑی علاقوں میں انتخابات کرائے جانے کی تجاویز زیر غور ہیں تاہم حتمی اعلان خیبر پختونخوا کابینہ کے فیصلے کے بعد کیا جائے گا۔منتخب بلدیاتی اداروں کی تحلیل کو طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کیلئے آئینی مہلت کے اندر انتخابات کرانا اس لئے ممکن نہیں تھا کہ سات قبائلی ایجنسیاں اور چھ فرنٹیئر ریجنز بھی صوبائی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔ فاٹا انضمام کے بعد صوبے کی آبادی میں ایک کروڑ کا اضافہ ہوا تھا۔ جبکہ قبائلی اضلاع میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کیلئے وقت درکار تھا اور بعض قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال کے باعث حلقہ بندیوں میں مشکلات کا سامنا تھا۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات دو یا تین مرحلوں میں کرانے کی تجویز قابل عمل ہے۔ شہری علاقوں میں دسمبر تک انتخابات کرانا اس لئے ممکن ہے کہ یہاں حلقہ بندیاں پہلے سے طے ہیں موسمی حالات بھی انتخابات کیلئے موافق ہیں۔ جبکہ صوبے کے پہاڑی علاقوں میں شدید سردی اور برفباری کی وجہ سے دسمبر سے فروری تک انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔ مارچ کا مہینہ انتخابات کیلئے نہایت موزوں ہے۔ صوبائی حکومت کو قبائلی اضلاع سمیت صوبے کے دیگر حصوں میں باقی ماندہ حلقہ بندیوں کیلئے چھ مہینے کا وقت بھی مل جائے گا۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہی نہیں ایک ناگزیر قومی ضرورت بھی ہے۔ اس نظام پر ہمارے ملک میں کافی تجربات کئے گئے۔صدر ایوب خان کے دور میں بلدیاتی اداروں کو بنیادی جمہوریتوں کا نام دیا گیا تھا پھر جنرل ضیاالحق کے دور میں بلدیاتی ادارے بحال کئے گئے۔ ان کا متعارف کردہ ڈھانچہ یونین کونسل، تحصیل کونسل، ضلع کونسل، ٹاؤن کونسل، میونسپل کارپوریشن اور میٹروپولیٹن کارپوریشن پر مشتمل تھا۔ 1988میں جمہوری نظام کی بحالی کے بعد بلدیاتی نظام کی بساط کو دوبارہ لپیٹ دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بلدیاتی ادارے پھر بحال کردیئے انہوں نے مجسٹریسی نظام کا خاتمہ کیا۔ چیئرمین شپ کے عہدے کا نام بدل کر ناظم رکھ دیا گیا۔دیہی علاقوں میں یونین کونسل اور شہری علاقوں میں نیبرہڈ کونسلیں قائم کی گئیں۔ جنرل مشرف کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی بلدیاتی اداروں کا سلسلہ برقرار رکھا۔ تاہم دو سال قبل آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہونے والے بلدیاتی اداروں کی بحالی کیلئے ابھی شہری انتظار کر رہے ہیں۔