الیکٹرانک ووٹنگ ۔۔۔۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں نئی اختراع نہیں بلکہ اِن کا استعمال (اِستفادہ) گزشتہ چند عام انتخابات میں تجرباتی اور جزوی طور پر کیا گیا ہے تاہم نئی پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ وفاقی حکومت ’شفاف انتخابات‘ کے انعقاد کیلئے ’اِلیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ پر مکمل اِنحصار کرنا چاہتی ہے۔ ماضی میں ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ کے ایک تجربے سے دستاویزات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ (ecp.gov.pk) پر موجود ہیں‘ جس کا عملی مظاہرہ الیکٹرانک ووٹنگ کے طریقہئ کار سے متعلق تربیتی ویڈیو (ecp.gov.pk/EVMurdu.mp4) کی صورت دیکھا جا سکتا ہے جس کے پس پردہ آواز (dubbing) کے ذریعے اُردو اور پشتو زبانوں میں ہدایات دی گئی ہیں اور ووٹنگ کا عمل ایسی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ناخواندہ یا پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والا شخص بھی باآسانی سمجھ لے۔ مذکورہ ویڈیو کا دورانیہ 1:38 منٹ ہے‘ جسے ایک نئے ووٹنگ کے نظام کے تعارف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور اِسی کی روشنی میں مستقبل کا تعین بھی ہوگا کہ آئندہ انتخابات کے مراحل کیا ہوں گے۔ مذکورہ ویڈیو میں ایک شخص (فرضی کردار) کو دیکھا جا سکتا ہے جو وہ پولنگ بوتھ میں داخل ہوتا ہے جہاں منتظر پولنگ آفیسر مشین کو فعال (ایکٹیویٹ) کرتا ہے جس کے بعد وہ ملحقہ الگ کمرے میں رکھے ہوئے ”ووٹ پیڈ“ کے پاس جاتا ہے۔ ’ووٹ پیڈ‘ ایک تختی نما الیکٹرانک آلہ ہے جس پر مختلف نام درج ہوتے ہیں اور اِن میں کسی ایک نام کو چھونے یا دبانے سے من پسند اُمیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیا جا سکتا ہے اور یہ روایتی ووٹ کی پرچی کے برعکس رائے دہی کا آخری مرحلہ ہے لیکن اِس میں بھی پرچی کا عمل دخل رکھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر مشینوں کے ذریعے (الیکٹرانک ووٹنگ) کے 2 مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ووٹ ڈالنے والے کی تصدیق کا ہے‘ جو بذریعہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبر اور اِس نمبر سے جڑے ہوئے انگوٹھے کے نشان (بائیومیٹرک) کی تصدیق پر مبنی ہے جبکہ تصدیق ہونے کی صورت دوسرے مرحلے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے شخص کو کسی ایک اِنتخابی اُمیدوار کے نام کے ساتھ لگے ہوئے بٹن کو دبا کر رائے دہی کے عمل کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔ یہ دونوں عمل کاغذ کی پرچی کے مقابلے نہ صرف آسان ہیں بلکہ اِس میں ناخواندگی کی وجہ سے ووٹ ضائع ہونے کا احتمال بھی نہیں ہوتا اور ہر ووٹ دینے والے کو 100فیصد اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ اُس کا ووٹ شمار ہوگا۔ انتخابات کا یہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے حصول کیلئے یہ ساری محنت کی جاتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ووٹروں کی شناخت بذریعہ انگوٹھے کے نشانات تک رسائی اور اِس کی تصدیق کے مراحل ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کی وساطت سے مکمل ہوں گے اور چونکہ پورے پاکستان میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد ایک بہت بڑی مشق ہوتی ہے اِس لئے ’نادرا‘ کو خصوصی انتظامات کرنا پڑیں گے تاکہ اُن کے آلات (servers) بیک وقت لاکھوں کی تعداد میں تصدیق کی درخواستوں کو جلد از جلد نمٹا سکیں اِس سلسلے میں ہمسایہ ملک بھارت اور دیگر ممالک کی مثالیں موجود ہیں‘ جہاں قومی و صوبائی اور بلدیاتی انتخابات ایک ہی روز میں مکمل نہیں ہوتے بلکہ انتخابی حلقوں کو تقسیم کر دیا جاتا ہے اور ہر انتخابی حلقے کے نتائج اُس وقت تک خفیہ رکھے جاتے ہیں جب تک پورے ملک یا تمام متعلقہ انتخابی حلقوں میں پولنگ کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا۔ ذرائع ابلاغ نے پاکستانی قوم کو جس ’بریکنگ نیوز‘ اور ’سب سے پہلے انتخابی نتیجہ‘ پیش کرنے کا جس انداز میں عادی کیا ہے اُس میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ انتخابی نتائج کو غیرضروری طور پر سنسنی خیز انداز یا دلچسپ بنا کر پیش نہ کیا جائے اور انتخابات کو محض جیت یا شکست کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسا عمل بھی ہے جس کا تعلق ملک کے مستقبل اور مستقبل کے مستقبل سے ہے۔تحریک انصاف پرعزم ہے کہ وہ رواں برس ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ سے متعلق قانون سازی مکمل کر لے گی اور آئندہ عام انتخابات (جن کا انعقاد آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور ممکنہ طور پر اگست یا ستمبر 2023ء میں ہوگا) بذریعہ ’اِلیکٹرانک ووٹنگ مشینز‘ ہی ہوں گے تاہم یہ مشینیں کتنی محفوظ ہوں گی‘ اِن کے ذریعے ڈالے گئے ووٹ اور کوائف کتنے محفوظ ہوں گے اور اِن میں ووٹ ڈالنے کے بعد ردوبدل ممکن ہو گا یا نہیں؟ کس قسم کی ووٹنگ مشینیں خریدی جائیں گی اُن کے آپریٹنگ سسٹم کیا ہوں گے کیونکہ کئی ایسے مفت آپریٹنگ سسٹم موجود ہیں‘ جو زیادہ استعمال ہوتے ہیں لیکن اُن میں سیکورٹی فیچرز کم ہیں؟ کیا یہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں مقامی طور پر تیار کی جائیں گی یا اِنہیں درآمد کیا جائے گا؟ کیا یہ مشینیں مصنوعی ذہانت سے بھی لیس ہوں یا نہیں اور کیا اِن مشینوں کی خریداری میں پائیداری کے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے کہ یہ آئندہ کم سے کم بیس پچیس انتخابات کیلئے کارآمد رہیں اور اِن کے پرزہ جات بھی باآسانی دستیاب ہوں تاکہ جیسے جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہو‘ ووٹنگ مشینوں کے ہارڈ وئر (hardware) اور سافٹ وئر (software) کو تبدیل (update) کیا جا سکے گا یا نہیں؟ ایسے بہت سارے تکنیکی سوالات ہیں۔مگر سب سے ضروری یہ ہے کہ اس تمام عمل کو متعلقہ ادارے یعنی الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا جائے جو مختلف تکنیکی و فنی اور عملی پہلوؤں کے ساتھ پاکستان کے زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے کسی ایسے نتیجے پر پہنچے جو انتخابی نتائج پر اثرانداز نہ ہو۔