اِنتخابی نظم و نسق

الیکٹرانک ووٹنگ کے عنوان سے موضوع دلچسپ و مسلسل ہے کہ کوئی ایسا انتخابی نظام وضع ہونا چاہئے جس کے ذریعے دھاندلی کا امکان نہ رہے اور انسانی فہم و فراست اور غیرجانبداری کے مقابلے مشینوں پر زیادہ اِعتماد کرنے جیسے نتیجے تک پہنچنے میں فیصلہ ساز جس دانش و درمندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اِس کی انتخابات ہی طرح مشکوک ساکھ جب تک بحال نہیں کر لی جاتی اُس وقت تک الیکٹرانک ووٹنگ کارآمد نہیں رہے گی حالانکہ اِس سے زیادہ فعال‘ مستعد اور غیرجانبداری طریقہئ انتخاب کرہئ ارض پر ممکن ہی نہیں۔ اِس حوالے سے چند نکات کا احاطہ (بعنوان الیکٹرانک ووٹنگ بتاریخ تین ستمبر دوہزاراکیس) کے تحت مضمون میں ذکر کرنے کا مقصد اُن حکومتی کوششوں کی جانب توجہ قارئین کی توجہ مبذول کروانا تھا جو اِن دنوں جاری ہیں تاہم الیکٹرانک ووٹنگ کی حمایت اور مخالفت میں عام آدمی (ہم عوام) کی رائے تقسیم ہے‘ جس کے لئے انتخابات سے زیادہ مہنگائی پر کنٹرول زیادہ اہم ہے اور یہ بات وفاقی و صوبائی فیصلہ سازوں تک پہنچ جانا چاہئے کہ عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ مہنگائی میں کمی لانے کے لئے فیصلہ سازی کے مراحل میں جملہ توانائیاں‘ وقت اور افرادی و تکنیکی وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ ”ہم اپنے حال پر خود رو دیئے ہیں …… کبھی ایسی بھی حالت ہو گئی ہے (شہزاد احمد)۔“”عام انتخابات‘‘کا انعقاد بنیادی طور پر 2 مراحل میں تقسیم ہے۔ پہلا مرحلہ کسی بھی عام انتخابات میں ووٹ کی پرچی ڈالنے کا ہے۔ یہ ایک پرچی (جسے عرف عام میں قیمتی ووٹ کہا جاتا ہے‘ صرف انتخاب کے دن یعنی مقررہ اوقات میں ڈالے جانے تک ہی قیمتی رہتا ہے)۔ انتخابات ضمنی ہوں یا قومی اور بلدیاتی اِن میں ووٹ ڈالنے کا طریقہ ایک جیسا ہی رہتا ہے جبکہ انتخابات کا دوسرا مرحلہ اِس پورے عمل کے رونما ہونے سے قبل کئے جانے والے انتظامات و بندوبست سے متعلق ہے۔ غور طلب ہے کہ اِنتخابی عمل کا پہلا مرحلہ یعنی ووٹ ڈالنے کا طریقہئ‘ متنازعہ نہیں بلکہ اِن کے نتائج مشکوک ہونے کی بنیادی وجہ انتخابی نظم و نسق ہے جس میں الیکشن سے قبل (پری الیکشن)‘ الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد (پوسٹ الیکشن) مراحل میں (مبینہ طور پر) دھاندلی ہوتی ہے اور دھاندلی کے الزامات صرف وہی عائد کرتے ہیں جن کی جانب انتخابی نتائج کا جھکاؤ نہیں ہوتا۔ اگر مذکورہ تینوں مراحل (انتخابات سے قبل‘ انتخابات کے دن اُور انتخابات کے بعد) خوش اسلوبی سے سرانجام پائیں اور ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں کا اِن پر اتفاق ہو جائے تو انتخابی عمل سے جڑے خدشات و تحفظات اور شکایات خودبخود دور ہو جائیں گی اور ”الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘‘جیسے بیش قیمت الیکٹرانک آلات خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی لیکن اگر مذکورہ تینوں مراحل کمی بیشی ہوتی ہے اور خاطرخواہ شفافیت کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے حاصل ہونے والے انتخابی نتائج بھی مشکوک ہی رہیں گے چاہے اِنہیں کتنا ہی جامع اور کتنا ہی مصنوعی ذہانت سے لیس کیوں نہ کردیا جائے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے انتخابات کا اگر کوئی ایک ایسا فائدہ دیگر سبھی امور پر حاوی نظر آتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے ووٹ ضائع نہیں ہو سکتے اور اِن مشینوں کے ذریعے کسی ڈالے گئے ووٹ کو بعداز انتخابات ممکنہ دھاندلی کے عمل سے مسترد نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ اگر ووٹ کی پرچی پر ایک کی بجائے 2 مرتبہ مہر لگا دی جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کسی انتخابی حلقے کے تمام پولنگ مراکز یا کسی ایک بھی پولنگ مرکز کے نتیجے کی دوبارہ گنتی (ووٹ کی ہر پرچی کی جانچ پڑتال) کی جاتی ہے تو اِس سے ووٹوں کی دوسری مرتبہ گنتی پہلی مرتبہ کی گنتی سے مختلف اور مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد بھی اکثر پہلے سے زیادہ فہرست ہوتی ہے! الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے گئے ہر ایک ووٹ کی تصدیق اور جانچ ممکن ہے اور اِس بات کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس شخص نے کس انتخابی اُمیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا جبکہ اِس پر ایک مرتبہ آنے والی لاگت ہر انتخابی عمل کی انجام دہی کے بعد کم ہوتی چلی جائے گی اور فی الوقت جو قیمت بوجھ نظر آ رہی ہے‘ وہ چند قومی و صوبائی اور بلدیاتی انتخابات کے بعد اپنی قیمت پورا کر لیں گی۔ یقینا یہ بات ممکن ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بغیر بھی شفاف انتخابات کا انعقاد کروایا جا سکے لیکن اِس سلسلے میں زیادہ محنت کی ضرورت ہے‘تحریک انصاف تبدیلی کی علمبردار ہے۔ طرزحکمرانی کے ساتھ انتخابات میں بھی اصلاحات کی داعی ہے اور اگر فیصلہ سازوں کی توجہات مرکوز ہیں تو انتخابی عمل سے قبل کے مراحل میں ہونے والی دھاندلی کو روکنے کی کوشش کریں دیگر دونوں عمل (انتخابات کا دن اُور انتخابات کے بعد مراحل) خود بخود درست ہو جائیں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ انتخابات سے قبل کسی بھی اُمیدوار کے لئے یہ نہ کہا جائے کہ وہ ’لازماً جیتنے والوں سے تعلق رکھتا ہے!؟۔ تحریک انصاف سمیت جملہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو سوچنا چاہئے کہ اُن کے بارے میں پارٹی کے عام کارکنوں کی رائے کیا ہے اُور جب کسی حلقے میں دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کرکے ’الیکٹیبلز‘ کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو اِس سے پارٹی کے قربانیاں دینے والے بے لوث کارکنوں کے دل پر کیا گزرتی ہے اُور وہ کس قدر گمنامی میں چلے جاتے ہیں! مشینوں کی حکومت اُور مشینوں کے ذریعے حکومت کرنے میں فرق ہونا چاہئے اُور یہ فرق جس قدر ملحوظ رکھا جائے گا اُسی قدر ملک و قوم اُور سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہوگا۔