’اِلیکٹرانک ووٹنگ (تین ستمبر)‘ اور ’اِنتخابی نظم و نسق (چار ستمبر)‘ کے عنوانات سے جو اَحوال پیش کئے گئے‘ اُن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت اِنتخابی عمل کو اِس صورت ترتیب و تشکیل دینا چاہتی ہے کہ انتخابی منتظمین ذاتی ترجیحات (پسند و ناپسند) یا سیاسی و غیرسیاسی مداخلت کے باوجود بھی انتخابی نتائج پر اثرانداز نہ ہو سکیں لیکن یہ ایک نکتہ (پہلو) حزب اختلاف کی سمجھ میں نہیں آ رہا یا وہ سمجھنے کے باوجود بھی سمجھنا نہیں چاہتے کیونکہ اگر انتخابی عمل کی اِس مرحلے پر اصلاح ہو گئی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی اِسی الیکٹرانک نظام کے تحت اپنا حق رائے دہی (ووٹ) استعمال کرنے کا موقع مل گیا تو اِس سے اُن سیاسی جماعتوں کو خسارہ ہو گا جو انتخابی سیاست کی ماہر ہیں اور اِسی کے بل بوتے پر قومی یا علاقائی سیاست کر رہی ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہر سیاسی جماعت کو اُس کی ’اصل اوقات‘ معلوم ہو جائے گی کہ وہ عوام کی نظروں میں کتنی مقبول ہے۔ ماضی کے انتخابات کو اگر تجربات کی شکل میں دیکھا جائے تو انتخابات سے قبل اجناس و روپے پیسے کی تقسیم کے علاؤہ ترقیاتی کاموں کے ذریعے بھی ووٹروں کی رائے پر اثرانداز ہوا جاتا رہا ہے اور یہ ایک معمول ہے کہ عام اِنتخابات سے ایک سال قبل بڑے ترقیاتی منصوبوں (میگا پراجیکٹس) کی تکمیل ہونے لگتی ہے جن کی تشہیر انتخابی معرکے میں کامیابی کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔
تحریک انصاف آئندہ عام انتخابات بذریعہ ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کرنے کا متعدد مرتبہ عزم کا اظہار کر چکی ہے لیکن اِس مرتبہ باقاعدہ اعلان سامنے آیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs)‘ کے ذریعے ہوں گے جبکہ حزب اختلاف کی جانب مثبت جواب یا تجاویز کی بجائے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں کو ’اِی وی اَیمز‘ کی عملی مشقیں دیکھنے اور ’اِلیکٹرانک ووٹنگ‘ کے طریقہئ کار کا مطالعہ کرنے کیلئے مدعو کیا ہے اور اِس سلسلے میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ایک نمونہ پارلیمینٹ میں بھی رکھا گیا ہے تاکہ اراکین اپنی سہولت کے مطابق اُس کے کام کاج کا طریقہ قریب سے دیکھ سکیں تاہم اختلاف الیکٹرانک ووٹنگ کے نظام‘ آلات اور طریقے پر نہیں بلکہ اِس بات پر ہے کہ حکومت سے تعاون کیوں کیا جائے۔ سیاست برائے سیاست کی وجہ سے حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت سے تعاون نہیں کرنا چاہتیں تاکہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اصلاحاتی عمل کو آگے بڑھائے یقینا یہ ’غیرجمہوری مخالفانہ رویہ‘ عوام کی نظروں میں ہوگا کہ تحریک انصاف کی مخالفت میں سیاسی جماعتیں درحقیقت پاکستان میں جمہوریت کو نہ تو توانا (مضبوط) دیکھنا چاہتی ہیں اور نہ ہی عوام کی رائے (ووٹ) کے تحفظ کو ضروری سمجھتی ہیں۔
حزب اختلاف کا ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اِس کے ذریعے انتخابی نتائج میں زیادہ آسانی سے ردوبدل کرنا ممکن ہے جو کہ سراسر بے بنیاد الزام ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کے ذریعے ووٹ ڈالے جانے کے بعد انتخابی نتائج میں ردوبدل ممکن ہی نہیں کیونکہ ہر ایک ووٹ کے کوائف اُس کے قومی شناختی کارڈ نمبر سے منسلک ہوں گے اور کسی بھی قومی شناختی کارڈ کے تحت ڈالے گئے ووٹ کی تفصیلات دیکھی جا سکیں گی علاوہ ازیں ووٹ ڈالنے کا وقت بھی ثبت ہوگا جس کی مدد سے پولنگ سٹیشن میں لگے ہوئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے کی فوٹیج سے ووٹ ڈالنے والے شخص کو بھی شناخت کیا جا سکے گا اور یہ ممکن نہیں رہے گا کہ کوئی شخص یا کوئی جماعت اِس بات دعویٰ کرے کہ ڈالے گئے ووٹروں کا تعلق یا اُن کی بائیومیٹرک تصدیق کے مراحل میں دھاندلی کی گئی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ کا عمل پہلے مرحلے میں نیم خودکار تھا۔ دوسرے مرحلے میں خودکار اور تیسرے مرحلے میں بائیومیٹرک تصدیق سے مشروط کردیا گیا جبکہ چوتھے مرحلے (فورتھ جنریشن الیکٹرانک ووٹنگ) میں اِسے انٹرنیٹ کے ذریعے مرکزی نظام سے منسلک کر دیا گیا ہے جس کے ذریعے ہر ایک ووٹ ڈالنے پر مرکزی دفتر میں ووٹ کے اعدادوشمار جمع (محفوظ) ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے استعمال پر منحصر جدید ووٹنگ کا نظام آسٹریلیا‘ بیلجئم‘ برازیل‘ ایسٹونیا‘ فرانس‘ جرمنی‘ بھارت‘ اٹلی‘ نمیبیا‘ ہالینڈ‘ ناروے‘ پیرو‘ سوئزرلینڈ‘ برطانیہ‘ وینزویلا اور فلپائن میں جزوی یا کلی طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں متعارف کروائی جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو انٹرنیٹ کے عمومی رابطہ وسیلے سے جوڑنے کا مطلب ’ہیکنگ کا خطرہ‘ اور ’آ بیل مجھے مار‘ جیسا امکان ہے کیونکہ انٹرنیٹ پر منحصر نظام بنانے پر آنے والی لاگت کے مساوی یا اِس سے زیادہ لاگت سائبر سیکورٹی پر اُٹھتی ہے اور اِس کیلئے زیادہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ اِس لئے اکثر سائبر سیکورٹی پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے۔ اَمریکہ کے معروف تھنک ٹینک اِدارہ ’بروکنگز ریسرچ گروپ‘ 1916ء میں قائم ہوا اور تب سے سماجی و سیاسی امور کے علاوہ ممالک کی خارجہ پالیسیوں‘ عالمی و علاقائی اقتصادیات و شماریات اور طرزحکمرانی سے متعلق اصلاحات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تحقیقی ادارے نے بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ سے متعلق ایک جائزہ لیا تھا‘ جس کا عنوان تھا کہ ”بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کس طرح جمہوریت بہتر (مضبوط) ہوئی؟“ اوریہ جملہ اِس پوری کوشش کا نچوڑ قرار دیا جا سکتا ہے کہ (ترجمہ) ”انتخابات کے آزادانہ و منصفانہ انعقاد (شفافیت) کا انحصار حق رائے دہی کے عمل پر ہوتا ہے اگر یہ عمل مداخلت سے پاک ہوگا تو اِس کے نتیجے میں قومی و صوبائی فیصلہ سازی کا عمل بھی عوام کے حقیقی نمائندوں کے ہاتھ میں جائے گا اور بھارت نے یہ ہدف ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں‘ کے ذریعے بڑی حد تک حاصل کر لیا ہے۔“ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں جو دنیا سے الگ ہو بلکہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کے اندر ہونے کے ساتھ یہ ہمسایہ ممالک اور ہمسایہ ممالک کے ذریعے دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں جمہوریت کی مضبوطی و تقویت کیلئے تجربات ہوتے ہیں‘ اُس سے نہ صرف پاکستان کو باخبر رہنا چاہئے بلکہ اِن تجربات کے نتائج پر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ اصلاحات کے ذریعے جو فوائد جہاں کہیں بھی حاصل ہو رہے ہیں‘ اُن سے ’قومی مفاد‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں بھی استفادہ ہونا چاہئے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ قوم کو سوائے ”بندگلی“ میں دھکیلنے سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوگا جہاں اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا ہو وہاں اُمید کی کسی کرن (جو کہ آنکھوں کا دھوکہ بھی ہو سکتی ہے) کے ساتھ آگے بڑھنے سے بہتر ہے کہ علم و یقین اور تجربات کے سوا نیزے پر دمکتے سورج کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں۔ حکمت یہی ہے کہ دوسروں کے تجربات سے اخذ نتائج کو مدنظر رکھا جائے اور دانشمندی یہی ہے کہ دوسروں کی دانشمندی سے فائدہ اُٹھایا جائے۔