دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں اربوں ڈالر ضائع کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو بالاخر بے نیل و مرام کابل سے نکلنا پڑا۔ رات کی تاریکی میں افغانستان سے نکلتے ہوئے امریکی اور نیٹو فوجی 85ارب ڈالر کا فوجی سازوسامان بھی طالبان کیلئے وراثت میں چھوڑ گئے۔ انخلاء کا عمل اتنی عجلت میں انجام پایا کہ امریکی فوجی اپنے پالتو کتے اور بلیاں بھی ساتھ نہیں لے جاسکے۔ امریکی سینٹرل کمانڈ نے کابل ہوائی اڈے پر کئی طیاروں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ جدید راکٹ ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنادیا۔جب امریکی فوجی کابل سے نکل رہے تھے تو ائربیس پر کھڑے اپنے 73جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ امریکی فوجی کمانڈر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو طیارے پیچھے چھوڑ آئے ہیں انہیں ناکارہ بنادیا ہے وہ طیارے دوبارہ کبھی پرواز نہیں کر سکیں گے اور کوئی بھی انہیں چلا نہیں سکے گا۔امریکہ نے افغانستان کے مختلف شہروں میں اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے تھے وہاں موجود اربوں ڈالر کے فوجی سامان کو ناکارہ بنانے یا ساتھ لے جانے کاانہیں موقع نہ مل سکا۔ امریکی فوج نے کابل ائربیس پر70ایم آر اے پی مسلح ٹیکٹیکل گاڑیاں بھی یادگارچھوڑی ہیں جن میں سے ہر گاڑی کی قیمت 10 لاکھ ڈالر ہے۔امریکی فوجی راکٹ، گولہ باری اور بمباری روکنے کا نظام سی آر اے ایم بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے۔ جسے ایئرپورٹ کو راکٹ حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔اربوں ڈالر کا مال غنیمت چھوڑ کر جب امریکی فوج کابل سے چلی گئی تو کابل کی گلیوں میں جشن بپا ہوگیا۔ لوگ خوشی میں ہوائی فائرنگ کررہے تھے۔طالبان جب کابل ائرپورٹ کے احاطے میں قائم ائربیس میں داخل ہوئے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ جشن فتح منارہے تھے۔ کوئی جنگی طیاروں کے کاک پٹ میں بیٹھ کر اڑان بھرنے کا پوز دے رہاتھا تو کوئی ہیلی کاپٹر ُاڑانے کے موڈ میں نظر آرہا تھا۔ جنگی سازوسامان کے ساتھ کچھ لوگ سیلفیاں لے رہے تھے۔ طالبان نے امریکی جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں پر امارات اسلامی کے جھنڈے لہرادیئے اور بکتر بندگاڑیوں کا جلوس لے کر شہر میں گشت کرتے رہے۔ کابل، قندہار اور دیگر شہروں میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور نیٹو کے علامتی جنازے بھی نکالے گئے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے 42سال قبل افغان محاذ پر امریکہ کے ہاتھوں سوویت یونین کی فوجی شکست کے غصے کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا کہ بیس سال تک اربوں ڈالر لٹانے کے باوجود امریکہ کو افغانستان میں کچھ ہاتھ نہ آیا اور اپنے اقدار افغانوں پر مسلط کرنے میں ناکامی کے بعد انہیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ کابل سے روانہ ہوتے وقت امریکی اور نیٹو فوجیوں نے سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے امریکی صدر آج کل ذہنی طور پر کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے وہ شاید بھول گئے ہیں کہ جن لوگوں کی انہوں نے بیس سال تک تربیت کی وہ بھی تو افغان ہی ہیں۔سقوط کابل کا زخم شاید امریکہ نہیں بھول پائے گا۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا ہے کہ امریکہ نے آئندہ اپنی فوجیں کسی دوسرے ملک میں فوجی یا سیاسی مقاصد کیلئے نہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ اور سوویت یونین کے بعد دنیا کی تیسری سپر پاور کوشکست فاش دینے کے بعد اب افغانوں کو اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔