ہنگام سے ہنگامے تک

پہلا اعلامیہ: دو ستمبر کے روز پشاور کے تعلیمی اداروں میں ڈبل شفٹ شروع کرنے کی منظوری دی گئی تاکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح صوبائی دارالحکومت کے تعلیمی اداروں میں بھی طلبہ کی تعداد نصف رکھی جا سکے‘ جو کورونا وبا سے ممکنہ بچاؤ کیلئے وضع کئے گئے ’حفاظتی انتظامات (SOPs)‘ کے تحت پہلے ہی لازمی قرار دیئے جا چکے تھے اور اِن پر اکثر نجی سکولوں میں عمل درآمد بھی ہو رہا تھا جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں حکومت کی جانب سے کسی حکمنامے (اعلامیے) کے منتظر تھے جو عوامی و ذرائع ابلاغ کے دباؤ پر جاری ہوا لیکن ابھی اِس پر عمل درآمد کا ایک دن ہی مکمل ہوا تھا کہ حکمت ِعملی پر نظرثانی کر دی گئی۔ دوسرا اعلامیہ: تین ستمبر کو اعلامیہ جاری ہوا جس کے تحت خیبرپختونخوا میں تعلیمی اداروں کو ایک ہفتے کی تعطیل اور بالخصوص آٹھ اضلاع (پشاور‘ صوابی‘ مالاکنڈ‘ سوات‘ ہری پور‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور صوبے کے انتہائی جنوبی ڈیرہ اسماعیل خان) میں پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ یہ اعلامیہ کورونا وبا پر نظر رکھنے و والے وفاقی ادارے ’نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی)‘ کی جانب سے بطور ہدایت جاری ہوا اور صوبوں نے اپنے اپنے متعلق ہدایات کی روشنی کی احکامات (اعلامیے) جاری کئے لیکن اِس پورے احتیاطی عمل میں جس ایک بات کا خیال نہیں رکھا گیا‘ وہ برسرزمین حقائق ہیں جیسا کہ وہ طلبا و طالبات جو ہاسٹلز (تعلیمی اداروں سے ملحقہ قیام گاہوں) سے استفادہ کر رہے ہیں‘ اُنہیں جب اچانک ہاسٹلز خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور انہوں نے اپنا ضروری سازوسامان (کپڑے‘ لیپ ٹاپ اور کتابوں) سے بھرے بھاری بھرکم بیگ اُٹھائے بس اڈوں کا رخ کیا تاکہ وہ اپنے اپنے شہر جا سکیں تو معلوم ہوا کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی عائد ہے۔ اِس صورتحال میں طلبہ کیلئے سوائے نجی طور پر ٹیکسی گاڑیوں کی خدمات حاصل کرنے کے علاوہ چارہ نہیں تھا سو اُنہوں نے مجبوراً دوگنے سے بھی قیمت ادا کر کے ٹیکسی گاڑیاں حاصل کیں اور جیسے تیسے گرتے پڑتے اپنے اپنے گھروں کو پہنچے۔ اطلاعات ہیں کہ اِس عمل میں بعض طلبہ کو گھر پہنچنے میں بارہ سے چودہ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا چونکہ اِس تعداد میں طالبات بھی شامل تھیں‘ جن کے والدین و سرپرست اور اہل خانہ کیلئے تین اور چار ستمبر کے دن بہت بھاری ثابت ہوئے۔کورونا وبا کی چوتھی لہر (آغاز جولائی 2021ء) پہلے سے زیادہ مہلک (تیزی سے پھیلنے والی کورونا جرثومے کی قسم ’ڈیلٹا وائرس‘) سے متعلق احتیاطی تدابیر ’عوام الناس کے مفاد‘ میں جاری کی جاتی ہیں لیکن غیرضروری طور پر ’کورونا ایس او پیز‘ پر ’ہنگامی (ایمرجنسی) عمل درآمد‘ کرایا جاتا ہے جس سے نہ صرف سنسنی خیزی پھیلتی ہے بلکہ یہ ہنگامی اقدامات عام آدمی (ہم عوام) کے لئے جسمانی اذیت و مشقت‘ مالی پریشانی‘ وقتی مشکل اور ذہنی کوفت کا باعث بنتی ہے اور اگر سوچ بچار سے کام لیا جائے تو کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے ساتھ ’ہم عوام‘ کیلئے آسانیاں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں یعنی ایک تیر سے دو شکار ممکن ہیں۔ بات احساس کی ہے اور اگر حکومتی فیصلہ سازی پر احساس غالب آ جائے کورونا احتیاطی تدابیر سے ہر طبقے کو لاحق مشکلات میں کمی ممکن ہے۔ فیصلہ سازوں کو احساس بھی نہیں ہوگا کہ ہاسٹلز میں مقیم طلبا و طالبات کس قدر مشکل سے گھر پہنچے اور اُن کیلئے گیارہ ستمبر کو واپس ہاسٹلز پہنچنا کتنا مشکل ہوگا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی گیارہ ستمبر تک جاری رہے گی۔ افراتفری بذات خود مسئلہ ہے جبکہ ہنگام اور ہنگامہ خیزی سے بچنا چاہئے بقول فردوس گیاوی ”علم کی ابتدأ ہے ہنگامہ …… علم کی اِنتہا ہے خاموشی۔“ کورونا وبا کے پاکستان میں ظہور (فروری 2020ء) سے چوتھی لہر (ستمبر 2021ء) تک یعنی کامل اٹھارہ ماہ کے دوران کورونا احتیاطی تدابیر (SOPs) سب سے زیادہ تعلیمی اداروں سے متعلق جاری کی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمی اداروں یعنی سکولز‘ کالجز‘ جامعات اور تدریس گھروں (کوچنگ اکیڈمیز) میں زیرتعلیم طلبہ کیلئے ’کوویڈ ایس او پیز‘ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ کورونا کی پہلی تینوں لہروں میں وبا کا باعث بننے والے جس جرثومے سے واسطہ رہا وہ اٹھارہ سال سے کم عمر (بچوں اور نوجوانوں) کو متاثر نہیں کرتا تھا لیکن اِس کے باوجود تعلیمی اِدارے بند کئے گئے جبکہ وبا کی چوتھی لہر کہ جس میں ’ڈیلٹا‘ نامی جرثومہ کم عمروں کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے تاحال اٹھارہ سال سے کم عمر والوں کیلئے حفاظتی ویکسین کا آغاز بھی نہیں کیا تو وقت ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں اور حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’کورونا احتیاطی تدابیر‘ کو جامع بنایا جائے۔ وقت ہے کہ ’آن لائن (فاصلاتی) نظام تعلیم‘ اپنانے میں حکومتی سرپرستی میں اقدامات کئے جائیں اور اِس سلسلے میں خطے کے کئی ممالک میں اختیار کی جانے والی حکمت عملیاں (تجربات و مثالیں) قابل ِمطالعہ ہیں۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے جس ’کمال دانشمندی‘ کا مظاہرہ اور ثبوت دیتے ہوئے قومی ٹیلی ویژن کے ایک چینل کو تعلیمی نشریات کیلئے مختص کیا ہے‘ وہ ناکافی اور غیرمعیاری ہے جبکہ ضرورت ہر تعلیمی درجے (کلاس) کیلئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینل کی ہے اور کالجز و جامعات کے اسباق کیلئے بھی الگ سے نشریاتی بندوبست میں سرمایہ کاری ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں  خطے کے کئی ممالککی مثال (تجربہ) موجود ہے جہاں نہ صرف جماعت (تعلیمی درجے) کیلئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینل چوبیس گھنٹے اپنی نشریات پیش کرتا ہے بلکہ اساتذہ اور طلبہ کے درمیان آن لائن رابطہ کاری (بذریعہ ٹیلی ویژن سوال و جواب) کے سلسلے بھی جاری ہیں۔ اِس کے علاوہ  ان ممالک کی وفاقی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی (اعلیٰ تعلیم) کے شعبے میں سرکاری و نجی جامعات نے طلبہ کو درس و تدریس میں مدد دینے والے وسائل (ایجوکیشنل سافٹ وئرز) تخلیق کرنے کے منصوبے (پراجیکٹس) بھی دیئے اور ایک مقابلے کا ماحول پیدا کیا جس میں بیرونی سرمایہ کاری بھی آئی اور بعداز کورونا  ان ممالک میں ’آن لائن (فاصلاتی) تعلیم‘ تاریخ کی بلندترین سطح کو چھو رہی ہے جس سے پاکستان میں بھی صارفین استفادہ کر رہے ہیں اور جس طرح  غیر ملکی ٹیلی ویژن چینلز کو ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ کے ذریعے پاکستان سے اربوں روپے ماہانہ کی آمدنی اُس وقت تک ہوتی رہی جب تک اِس پر پابندی عائد نہیں کی گئی بالکل اُسی طرح  غیر ملکی ’آن لائن تعلیمی وسائل (سافٹ وئرز)‘ پاکستان میں پھیل رہے ہیں اور اِن سے استفادے کی قیمت (سبسکرپشن) مختلف طریقوں سے ادا کی جا رہی ہے۔