طالبان شوریٰ کی دعوت پر پاک فوج کے شعبہ انٹرسروسز انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمیدنے افغانستان کا دورہ کیا۔ آئی ایس آئی چیف نے طالبان قیادت سے پاک افغان سکیورٹی، اقتصادی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔ جنرل فیض حمید نے طالبان حکومت کے انٹیلی جنس چیف ملانجیب سے بھی ملاقات کی جس میں دونوں ممالک کی قومی سلامتی کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔آئی ایس آئی چیف سے گفتگو میں طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہمارا قابل بھروسہ دوست ملک ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ ملک میں امن و امان قائم ہو جس کیلئے ہمیں پاکستان کے قریبی تعاون کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مستقبل میں دوطرفہ تعلقات مزید مستحکم ہوں گے ملاقات میں افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد پاک افغان تعلقات سے متعلق معاملات پر گفتگو کی گئی۔کابل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آئی ایس آئی چیف نے کہاکہ پاکستان پہلے بھی افغانستان کی بہتری کیلئے کام کرتا رہاہے اورمستقبل میں بھی افغان امن کیلئے کام کرتے رہیں گے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں سب ٹھیک ہو گا۔آئی ایس آئی کے سربراہ کا یہ دورہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد کسی بھی ملک کے اعلیٰ سطحی وفد کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کی دوسری بڑی اہمیت یہ ہے کہ طالبان شوریٰ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو دورے کی دعوت دی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ طالبان کی قیادت پاکستان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتی ہے اور وہ افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار کی معترف ہے۔طالبان قیادت کو بخوبی معلوم ہے کہ پاکستان گذشتہ بیالیس سالوں سے 35لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔جنرل فیض حمید کے دورہ کابل سے سب سے زیادہ تکلیف بھارت کو ہوئی ہے۔ بھارتی حکمرانوں اورمیڈیا کی چیخیں نکل گئی ہیں کیونکہ اشرف غنی حکومت کے خاتمے سے افغانستان میں بھارت کا کردار ختم ہوگیا ہے اور اس نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے وہاں اربوں ڈالر کی جو سرمایہ کاری کی تھی۔وہ بھی بھارت کے کسی کام نہ آسکی۔طالبان قیادت کو بخوبی علم ہے کہ کابل میں بھارت کا سفارت خانہ اور اٹھارہ دیگر شہروں میں قائم ان کے قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ وہاں سے دہشت گردوں کو تیار کرکے پاکستان بھیجا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا، قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں اور پاکستان نے وہ شواہد اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کے سامنے بھی رکھے ہیں۔طالبان قیادت نے بھی بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کو بھی دہشت گردی کی کاروائیوں سے باز رہنے کی وارننگ دی ہے۔ انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سربراہ کے دورہ کابل سے دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی کے حوالے سے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ طالبان قیادت افغان فوج کی تنظیم نو میں دلچسپی رکھتی ہے تاکہ فوج کو اندورنی انتشار اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے قابل بنایاجاسکے۔ جس کیلئے بلاشبہ انہیں پاک فوج جیسی بہترین پیشہ ور عسکری قوت کی مدد درکار ہے۔ افغانستان میں ایک منظم فوج اور مضبوط حکومت کا قیام خطے میں امن کی ضمانت ہے اور جب خطے میں پائیدار امن قائم ہوگا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو پہنچے گا۔ افغانستان کے راستے سی پیک کے ذریعے وسطیٰ ایشیائی ریاستوں تک پاکستان کے براہ راست رابطے قائم ہوں گے اور خطے کے ان مسلم ممالک کو گرم پانیوں تک رسائی ملے گی اور ترقی کا ایک نیادور شروع ہوگا۔