خیبرپختونخوا حکومت نے ’وقف قبرستانوں‘ کی باقی ماندہ اراضی قبضہ ہونے سے بچانے کیلئے 12 اضلاع میں قبرستانوں کی چاردیواریاں تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے جس کیلئے ’صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی‘ نے مجموعی طور پر 36 کروڑ‘ 31 لاکھ‘ 12 ہزار روپے مختص کئے ہیں جبکہ اِس ترقیاتی کام کی تکمیل ’جون 2025ء‘ تک کرنے کے لئے محکمہئ اوقاف کو نگرانی (ذمہ داری سونپ) دی گئی ہے۔ منصوبے میں پشاور کے 9‘ ہنگو کے 8‘ بونیر کے 7‘ سوات کے 4‘ چارسدہ کے 2‘ اور لکی مروت کے 2 اور بنوں کا ایک قبرستان شامل ہے۔ قابل ذکر پہلو ہے کہ اِس سے قبل خیبرپختونخوا کی کسی بھی حکومت نے قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہونے سے بچانے کیلئے اِس قسم کے اجتماعی ٹھوس اقدامات نہیں کئے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ صوبے کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہی ہوگا کہ قبرستانوں کی چاردیواریاں تعمیر کرنے (کسی بھی ترقیاتی کام) کے بعد اُس تعمیر کے ’گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS)‘ کوائف اکٹھا کئے جائیں گے اور یہ کوائف ’صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی‘ اراکین کے سامنے پیش کیا جائے گا جنہوں نے اِس منصوبے کی منظوری دی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’جی پی ایس‘ نامی رہنمائی کا نظام امریکہ کے خلائی ادارے کی ایجاد ہے جس نے 1978ء میں (43 برس قبل) اِس نظام کو دفاعی (فوجی) ضروریات کیلئے بنایا تھا جو ابتدا میں 24 جبکہ اِس سے وابستہ موجودہ خلائی سیاروں کی تعداد 77 ہے۔ جی پی ایس نظام سے کوئی بھی صارف مفت استفادہ کر سکتا ہے لیکن امریکہ جب چاہے اِس کے استعمال کو محدود کر سکتا ہے یا پھر جب اعدادوشمار کے ذریعے رہنمائی ملتی ہے اُنہیں تبدیل کر سکتا ہے جیسا کہ 1999ء کی پاک بھارت کارگل جنگ کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ امریکہ کی ’جی پی ایس‘ پر اجارہ داری ختم کرنے کیلئے روس نے گلانس‘ یورپین یونین نے گولیلو‘ چین نے بائی ڈو‘ جاپان نے کیو زیڈ ایس ایس اور بھارت نے ’نیو آئی سی‘ نامی نظام وضع کئے ہیں۔ عالمی سطح پر تاک جھانک اور رہنمائی کا یہ خلائی نظام موبائل فون سے لیکر گاڑیوں‘ ہوائی و بحری جہازوں حتی کہ زراعت و کاشتکاری میں بھی استعمال ہو رہا ہے اور اِس کے استعمال کرنے کے امکانات لامحدود ہیں جن میں سے ایک قبرستانوں کی چاردیواریوں کے کوائف بھی ہیں کہ اِس کی مدد سے نہ صرف ترقیاتی کام کی درست مقدار معلوم ہو سکے گی یعنی کہ کتنے رقبے میں چاردیواری تعمیر کی گئی ہے بلکہ اِس سے قبرستانوں کی حدود کا تعین بھی ہو جائے گا کہ خیبرپختونخوا کے جن 12 اضلاع کے 38 قبرستانوں کے گرد چادیواری تعمیر ہو گی اُن کا کل رقبہ اور محل وقوع کیا ہے۔قبرستانوں کی چاردیواریوں سے متعلق فیصلہ خوش آئند ہے لیکن اِس سلسلے میں 2 اہم پہلو نظرانداز کئے گئے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قبرستانوں کی اراضی صرف 12 اضلاع میں قبضہ نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ضلع کے مذکورہ مقبوضہ قبرستانوں کی تعداد درست ہے‘ جیسا کہ پشاور کے 9 قبرستانوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ قبرستانوں کی اراضی قبضہ ہونے کے باعث درجنوں ٹکڑوں میں تقسیم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قبرستانوں کی چاردیواریوں کے تعمیراتی کاموں کی نگرانی اور اِس عمل کی انجام دہی محکمہئ اوقاف کی زیرنگرانی دی گئی ہے‘ گزشتہ برس 2020ء میں محکمہئ اوقاف کا آمدنی و اخراجات میں عدم توازن (خسارہ) 5 کروڑ 25 لاکھ روپے سے زیادہ تھا‘۔ اگست 2020ء میں وزیراعلیٰ محمود خان نے محکمہئ اوقاف کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور اِس کی قبضہ ہوئی قیمتی اراضی کو واگزار کرانے کی ہدایات جاری کی تھیں جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے 1979ء کے وقف پراپرٹیز آرڈیننس میں بھی ترمیم بھی کی‘ جس کے تحت مقامی ضلعی انتظامیہ کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ محکمے کی مشاورت و منظوری سے قبضہ کی جانے والی اراضی کو واگزار کرائیں گے۔ ترمیم کے ذریعے اوقاف کی اراضی قبضہ یا اِس سے خلاف قانون استفادہ کرنے والے کو 5 سال قید اور ڈیڑھ کروڑ روپے تک جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں محکمہئ اوقاف کی ملکیت کل اراضی 65 ہزار 108 کنال ہے جس میں سے قریب 50 ہزار 612 کنال اراضی قبضہ ہو چکی ہے۔پشاور کے درجنوں قبرستانوں کی سینکڑوں ایکڑ اراضی قبضہ ہوئی ہے اور یہ معاملہ عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں زیرسماعت رہا ہے جبکہ ’قبرستان بچاؤ تحریک‘ کے نام سے باقاعدہ جدوجہد بھی جاری ہے جو قبرستانوں کی اراضی پر قبضے کو ’شرمناک فعل اور ’بے حرمتی‘ قرار دیتی ہے اور اِن کا مطالبہ ہے کہ کراچی اور لاہور کی طرز پر پشاور کے قبضہ شدہ قبرستانوں کی اراضی واگزار کرانے کیلئے بھاری مشینری (بلڈوزر) استعمال کی جائے۔ صوبائی حکومت نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے باقی ماندہ قبرستانوں کی اراضی کے گرد چاردیواری تعمیر کرنے کی منظوری دی ہے جبکہ اِس سے قبل قبرستانوں کی قبضہ شدہ اراضی واگزار کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاردیواری تعمیر ہو گئی تو قبضہ شدہ اراضی قانوناً اور مستقلاً نجی ملکیت کا حصہ بن جائے گی‘ جسے بعدازاں واگزار نہیں کرایا جا سکے گا۔ عجیب و غریب حکمت ہے کہ قبرستانوں کی باقی ماندہ اراضی کے گرد چاردیواری قائم کی جا رہی ہے لیکن اربوں روپے کی قبضہ شدہ اراضی کے بارے میں کوئی بات نہیں ہور ہی۔ قبضہ مافیا اور تجاوزات کسی ایک یا چند اِضلاع کا نہیں بلکہ پورے خیبرپختونخوا کا مسئلہ ہے اور اِس مسئلے سے نمٹنے کیلئے سیاسی و انتخابی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصلحت سے کام لینے کی بجائے جامع حکمت ِعملی کے تحت سخت گیر کاروائیوں (ایکشن) کی ضرورت ہے۔