وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ نیا پاکستان بٹن دبانے سے نہیں بنتا۔بلکہ نیا پاکستان بہتری کیلئے مسلسل جدوجہد، نظام میں اصلاحات اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کا نام ہے جس میں وقت لگے گا، ماضی میں برآمدات کو نظر انداز کرکے اس ملک کے ساتھ بڑا ظلم کیاگیا، برآمدات بڑھائے بغیر معیشت ترقی نہیں کرسکتی۔ لوگ ایمانداری سے ٹیکس دیں گے تو ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر قرضے لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لوگ جنت میں جانا چاہتے ہیں مگرجنت کے حصول کیلئے نیک اعمال کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔نئے پاکستان کے حوالے سے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر چینی، بجلی، گیس، ایل پی جی، سی این جی، گھی، کوکنگ آئل اور ضرورت کی دیگراشیاء مہنگی کرنے کا نام نیا پاکستان ہے تو چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ہمیں پرانا پاکستان ہی لوٹا دیں۔ جہاں لوگوں کو روزگار میسر تھا۔ اشیائے ضروریہ مناسب نرخوں پر دستیاب تھیں، یہ تو اپوزیشن کی باتیں، جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو موجودہ حکومت کو کچھ مسائل ورثے میں ملے ہیں۔عالمی وباء کورونا کی وجہ سے کچھ نئے اور سنگین نوعیت کے مسائل نے جنم لیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ امریکہ، ارجنٹائن، ناروے، فرانس، جرمنی اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی لوگ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی نے بھی حکومت کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ملک میں کسی بھی شعبے میں اصلاحات کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ بعض سرمایہ دار اور کاروباری حلقے حکومت کی پالیسیوں سے خوش نہیں ہیں۔کیونکہ اصلاحات کی صورت میں ان کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔حکومت کیلئے کرپشن کا خاتمہ بھی ایک چیلنج بنا ہوا ہے،جب قومی احتساب بیورو کرپٹ عناصر کے خلاف کاروائی کرتا ہے تو ملزموں کے ہم نوا بھی سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اداروں میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اصلاح احوال کی کوششوں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے یہ گمان تھا کہ وہ وزیراعظم کی کرسی سنبھالنے کے ساتھ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی گئی ساری رقوم ایک مہینے کے اندر واپس لائیں گے۔ تمام کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈال دیں گے اور ان سے لوٹی گئی پائی پائی ہفتوں اور مہینوں کے اندر وصول کریں گے۔ تمام اداروں کا نظام تبدیل کریں گے۔ اور اپنی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے یہ ہدف حاصل کرلیں گے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہیں پتہ چل گیا کہ اس معاشرے میں تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک میں چینی، آٹا، گھی، کوکنگ آئل اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ حکومت کچھ شعبوں میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش میں بھی مصروف ہے تاہم اس حوالے سے حزب اختلاف کی طرف تعاون نہ ہونے کے باعث کچھ معاملات التواء کا شکار ہو رہے ہیں یعنی کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری صرف حکمرانوں اور عوام کا مسئلہ رہ گیا ہے۔ موجودہ حکومت کی سیاسی بقاء کا انحصار بھی مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ہے۔ اس حوالے سے اگلے دوسال فیصلہ کن ہیں اگر عوام کی عدالت میں سرخرو ہونا ہے تو عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔