سرکاری تعلیمی اداروں (سکولز) میں ”سیکنڈ شفٹ“ شروع کرنے کا جو ”بنیادی مقصد“ بیان کیا گیا‘ وہ جاری وبائی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے متعلق نہیں بلکہ اِس سے مقصود یہ ہے کہ سرکاری عمارتوں (انفراسٹکچر) اور اِن میں موجود سہولیات سے ”زیادہ استفادہ“ کرتے ہوئے طلبا و طالبات کو سکولوں کے عمومی معمولات کے ساتھ دوسرے دورانیے (سہ پہر کے اوقات) میں بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے۔“ تعلیم سے متعلق صوبائی فیصلہ سازوں کیلئے ”25 لاکھ“ ایسے بچے بچیاں باعث فکر ہیں جو کسی بھی تعلیمی ادارے سے استفادہ نہیں کر رہے اور چونکہ بنیادی تعلیم آئینی ذمہ داری ہے اِس لئے صوبائی حکومت نہ صرف ہر ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نئے عزم اور جذبے سے ’داخلہ مہم‘ شروع کرتی ہے بلکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے لیکن یہ اضافہ حسب آبادی (حسب ِضرورت) نہیں ہے۔ صوبائی محکمہئ تعلیم کی ویب سائٹ (kpese.gov.pk) کے مطابق سال 2021ء کی داخلہ مہم جسے ”پکار رہی ہے سکول کی گھنٹی“ کا نام دیا گیا ہے جبکہ داخلہ مہم کو کامیاب بنانے کے علاؤہ ایک الگ ضمنی حکمت ِعملی ’سرکاری سکولوں میں ’ڈبل شفٹ‘ شروع کرنے کی ہے جس کے پہلے مرحلے میں 120 سرکاری (76 بچے اور 44 بچیوں) کے سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کی گئی ہے جبکہ ضرورت بچیوں کیلئے زیادہ سکولوں کی ہے کیونکہ سکولوں سے استفادہ نہ کرنے والوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں (پانچ سے سترہ سال عمر کی بچیوں) کی تعداد زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی و قانون سازی امتیازی حیثیت کی حامل ہے‘ جسے کئی قومی اعزازات حاصل ہیں جیسا کہ خیبرپختونخوا ملک کا وہ پہلا صوبہ ہے جس نے سکول بیگ کے وزن (کتابی بوجھ) سے متعلق قانون سازی کی اور ابتدائی درجے (پری گریڈ ون) سے لیکر گریڈ 12 (بارہویں جماعت) تک کے سکول بیگز کا وزن (بذریعہ قانون) مقرر کیا لیکن سکول بیگ وزن سے متعلق قانون کو صرف سرکاری تعلیمی اداروں کیلئے مخصوص و محدود سمجھا گیا اور یہی وجہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت سکول بیگ وزن سے متعلق صوبائی قانون پر عمل درآمد نہیں کر رہی لیکن اِس جرم (قانون کی خلاف ورزی) بارے اِن کی سرزنش بھی نہیں کی جاتی، کسی بھی قانون کی موجودگی سے زیادہ اس پر عمل درآمد ضروری ہے اور اس کا فقدان ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شرح فیسوں سے لیکر سکول بیگز تک بات قواعد سازی یا قانون سازی سے زیادہ آگے نہیں بڑھتی۔۔ خوش آئند ہے کہ حسب ِقانون پہلی جماعت سے پہلے درجے (پری گریڈ ون) کے بچے بچی کے بستے (سکول بیگ) کا وزن ڈیڑھ کلوگرام‘ پہلی جماعت کا سکول بیگ 2.4 کلوگرام‘ دوسری جماعت 2.6کلوگرام‘ تیسری جماعت 3 کلوگرام بتدریج بڑھتے ہوئے 12ویں جماعت کے سکول بیگ کا وزن زیادہ سے زیادہ 7 کلوگرام ہونا چاہئے۔ یوں سکول بیگ کا وزن ڈیڑھ سے سات کلوگرام سے زیادہ ہونا قانون جرم ہے جبکہ سکول بیگ وزن سے متعلق عالمی اصول کسی طالب علم کے جسمانی وزن کا 10 فیصد مقرر ہے۔ پاکستان میں تدریس کے جدید عالمی تصورات کو لاگو کرنے والے ایسے نجی سکول بھی موجود ہیں جہاں بچوں کو کتابیں لانے لیجانے کی زحمت و مشقت (تکلیف) برداشت کرنا ہی نہیں پڑتی اور کلاس رومز میں سکول انتظامیہ کی جانب سے کتابیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ نصابی کتب بچوں کے گھروں پر رہتی ہیں جن سے متعلق ’ہوم ورک (گھر میں کی جانے والی مشقیں اور معمولات)‘ آن لائن ارسال کئے جاتے ہیں۔سرکاری سکولوں سے متعلق ’اِصلاحاتی حکمت ِعملی‘ کی منظوری خیبرپختونخوا کابینہ کے 49 ویں اجلاس منعقدہ 27 جنوری 2021ء میں دی گئی جس میں صوبائی فیصلہ سازوں نے اِتفاق کیا تھا کہ ”یکم ستمبر 2021ء“ سے ”سیکنڈ شفٹ سکولز“ کا اجرأ کیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے جاری مالی سال 2020-21ء میں شعبہئ تعلیم کیلئے مختص سالانہ مالی وسائل میں 24 فیصد اضافہ کیا اور صوبائی حکومت کا ارادہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران طالبات کیلئے 70 نئے سیکنڈری سکولز تعمیر کئے جائیں۔ مفت درسی (نصابی) کتب فراہم کی جائیں گی اور حال ہی میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے سرکاری سکولوں میں داخلے کو پُرکشش بنانے کیلئے پرائمری و سیکنڈری کی سطح پر طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دیئے جائیں گے۔ یہ سب اچھی باتیں اپنی جگہ لیکن ہر سال داخلے سے محروم رہنے والوں کے بارے میں فیصلہ سازی‘ عمل اور آبادی بڑھنے جیسی زمینی حقیقت کے درمیان توازن ہونا چاہئے۔خیبرپختونخوا میں تحریک ِانصاف حکومت کا دوسرا دور ’اگست 2018ء‘ سے جاری ہے۔ بچوں کے عالمی دن (20 نومبر 2018ء) کے موقع پر خیبرپختونخوا کے ابتدائی و ثانوی تعلیم کے محکمے نے اعداد و شمار جاری کئے تھے جن سے معلوم ہوا کہ صوبے بھر میں 18 لاکھ (پانچ سے سترہ سال عمر کے) بچے بچیاں تعلیمی اداروں سے باہر ہیں اور سکول نہ جانے والے اِن بچوں سے متعلق اعدادوشمار کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک جائزے (سروے) سے اخذ کئے گئے جن کی تفصیلات کے مطابق ”خیبرپختونخوا کی آبادی کا ”23 فیصد“ 5 سے 17 سال عمر کے بچے بچیوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں اگر 100فیصد مان لیا جائے تو اِس میں شامل 23 فیصد آبادی (64 فیصد بچیاں اور 36 فیصد بچے) سکول نہیں جا رہے۔ یہاں یہ نکتہ بطور خاص توجہ لائق ہے کہ ’نومبر دوہزار اٹھارہ تک‘ 11 لاکھ 52 ہزار بچے بچیاں ایسے تھے جو کبھی بھی سکول نہیں گئے جبکہ 64 ہزار بچے بچیاں سکولوں میں داخل ہوئے لیکن وہ کسی نہ کسی مرحلے پر تعلیمی عمل سے علیحدہ ہو گئے اور تعلیم کے دوران سکول چھوڑنے والوں میں طالبات (لڑکیوں) کی تعداد طلبا (لڑکوں) کے مقابلے زیادہ ہے۔ اگست دوہزار اٹھارہ میں مجموعی طور پر 34 فیصد بچے اور 66 فیصد بچیاں تعلیمی نظام سے الگ تھے جبکہ پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویز (معاہدے) پر دستخط کر رکھے ہیں اور مذکورہ عالمی معاہدے پر دستخط کرنے والا پاکستان چھٹا ملک تھا جس نے ’12 نومبر 1990ء‘ سے بچوں کے تعلیم و دیگر حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کیا ہے لیکن کیا ملکی آئین اور عالمی وعدے پر اِس کی روح کے مطابق عمل ہو رہا ہے؟