فوجداری قوانین میں ترمیم

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سماجی انصاف کے نظام میں اصلاحات کا آخر کار خیال آہی گیا۔ وزارت قانون و انصاف نے نظام انصاف میں اصلاحات کا ایک جامع پیکیج تیار کر لیا ہے جس کے تحت فوجداری نظام میں 225 بنیادی جبکہ 644ذیلی ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ وزارت قانون کی جانب سے جن قوانین میں ترامیم کی سفارزشات تیار کی گئی ہیں ان میں پاکستان پینل کوڈ،کوڈ آف کریمنل پروسیجر،قانون شہادت،پاکستان پریزنزرولز،پاکستان ریلویز ایکٹ،کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ سمیت دیگر ترامیم شامل ہیں۔تعزیرات پاکستان کے تحت ملک میں جو قوانین نافذ ہیں وہ نوآبادیاتی دور میں وضع کئے گئے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو محکوم رکھنے کیلئے جو قوانین وضع کئے تھے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود ان کے وضع کردہ قوانین میں کسی ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ماضی میں بھی بدلتے وقت کی ضروریات کے مطابق قوانین میں ترمیم کی تجاویز طلب کی جاتی رہیں مگر وہ تجاویز صرف فائلوں تک محدود رہیں۔وزارت قانون و انصاف نے فوجداری قوانین میں ترمیم کا جو مسودہ تیار کیا ہے‘ اس میں گذشتہ 20سالوں کی تمام سفارشات کو یکجا کرکے چاروں صوبائی حکومتوں کے ایڈوکیٹ جنرلز‘وکلا‘این جی اوز اور دیگر اداروں کی مشاورت کے بعد ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے۔ترمیمی قوانین کے تحت عدالتوں میں مقدمات کے غیر ضروری التوا کو ختم کیا جاسکے گا اور ماتحت عدالتوں میں مقدمات کے التوا کی وجوہات بتانا ہونگی عدالتوں کو مقدمات کے التواء کی تحریری وضاحت دینی ہوگی۔وزارت قانون کا دعویٰ ہے کہ ترمیمی مسودہ قانون کی منظوری اور نفاذ سے ایف آئی آر کے اندراج کا نظام تیز تر ہوگا۔ مقدمات کی پیروی میں غیر ضروری تاخیر بھی ختم ہوجائے گی۔مجوزہ اصلاحات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو بھی قانون شہادت میں شامل کیا جائے گا۔فوجداری قوانین میں اصلاحات کا مسودہ وزیراعظم کوبھجوایا گیا ہے۔ وزیر عظم کی منظوری کے بعد یہ اصلاحاتی مسودہ کابینہ اور بعد ازاں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا  فوجداری قوانین کی طرح دیوانی قوانین میں بھی وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین معروضی حالات اور وقت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ نصف صدی قبل کے معاشرے، اور آج کے اقدار، حالات و واقعاتاور ضروریات میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔پاکستان کا پہلا متفقہ آئین 1973میں مرتب کیاگیا تھا۔ گذشتہ 48سالوں میں آئین پاکستان میں 23ترامیم کی گئی ہیں۔ 1973سے 1977تک ابتدائی چار سالوں میں آئین کے مندرجات میں 34بار ردوبدل کیاگیا۔ دس مرتبہ ایکٹ آف پارلیمنٹ، 24مرتبہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئین کے مندرجات تبدیل کئے گئے۔ اور سات مرتبہ پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی ترامیم منظور کی گئیں۔لیکن آزادی کے 74سال گذرنے کے باوجود ملک میں ایک صدی پرانے دیوانی اور فوجداری قوانین نافذ ہیں توقع ہے کہ وزارت قانون و انصاف کی طرف سے فوجداری قوانین میں ترامیم کی سفارشات کی تمام سیاسی جماعتیں وسیع تر قومی اور عوامی مفاد میں منظوری دیں گی۔ اور دیکھاجائے تو حزب اختلاف اور حکومت دونوں کا کام اور اولین ذمہ داری ہی یہی ہے کہ وہ عوامی مفاد کے منصوبوں اور قوانین کے حوالوں سے سرگرم رہیں اور ایوان میں اپنی موجودگی سے یہ احساس دلائیں کہ ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے وہ اس پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں چاہے عوامی مفاد کے حوالے سے قانون سازی ہو یا پھر ایسے منصوبوں کے حوالے سے سوچ و بچار ہو جو ملکی ترقی اور عوام کو سہولیات کی فراہمی میں معاون ہوں یہی عوامی نمائندوں کی اولین ذمہ داری ہے اب جو قدم اٹھانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے یہ یقینا وقت کی ضرورت ہے۔