سلیقے سے تجارت ہو رہی ہے!

خیبرپختونخوا میں اگست 2018ء سے جاری ’اِصلاحاتی حکمت عملی‘ میں سے اگر کسی ’کار ِخیر‘ کا عملاً نتیجہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ محکمہئ مال (بورڈ آف ریونیو) کی کارکردگی ہے‘ جس نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’قبضہ مافیا‘ کے خلاف کامیاب کاروائیاں کرتے ہوئے نہ صرف 30 اضلاع میں 60 ارب روپے مالیت کی 4100 کنال حکومتی اراضی واگزار کرائی ہے بلکہ لینڈ ریونیو ایکٹ 1968ء میں ترمیم کرکے نجی اراضی مالکان کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے اور اب مذکورہ ترمیم شدہ قانون (لینڈ ریونیو ایکٹ 1968ء) کے تحت نجی اراضی مالکان کو زمین کا قبضہ دلانے میں محکمہ عملاً تعاون کرنے کا مجاز ہو چکا ہے۔ قبل ازیں اگر کسی مقامی یا غیرمقامی اور بالخصوص بیرون ملک مقیم کسی پاکستانی کی ملکیت اراضی قبضہ ہو جاتی تھی تو مقبوضہ اراضی واگزار کرانے میں حکومتی ادارے کے اہلکار دلچسپی نہیں لیتے تھے اور اِن کا کردار صرف اراضی کی ملکیت کی دستاویزات کے اجراء یا اُن کی تصدیق کرنے کی حد تک محدود تھا۔ نئی ترمیم کے بعد محکمہئ مال مقبوضہ حکومتی یا نجی اراضی واگزار کرانے کا پابند ہوگا اور قبضے سے متعلق شکایت (تحریری درخواست) وصول ہونے اور اِس درخواست کی جانچ کے بعد قبضہ (دستاویزی طور پر) ثابت ہونے کی صورت میں محکمہئ مال کے اہلکار ایک ماہ کے اندر متعلقہ ریونیو آفیسر مقامی پولیس کی مدد یا اِس کے بغیر ازخود کاروائی کرتے ہوئے اراضی واگزار کروائیں گے جس کیلئے مقبوضہ اراضی کی ”حد براری (محل وقوع کا تعین)“ کا ازسرنو تعین کیا جائے گا اور محکمہئ مال کے اہلکاروں کو اِس بات (ایکشن) کا اختیار بھی ہوگا کہ وہ قبضہ کرنے والوں کے خلاف متعلقہ پولیس تھانے میں سرکار کی مدعیت میں مقدمہ بھی درج کروائیں۔ اِس سلسلے میں مزید تفصیلات (ترمیمی اعلامیہ بمعہ فارمز) محکمہئ مال کی ویب سائٹ (revenue.kp.gov.pk) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کئے جا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت یا انٹرنیٹ خواندگی نہ رکھنے والوں کیلئے محکمہئ مال نے خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں ”24 سروس ڈیلیوری سنٹرز“ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں قائم کئے ہیں جن کی تعداد 36 تک بڑھانا ادارہ جاتی ترقیاتی اہداف کا حصہ ہے۔ محکمہئ مال کے فیصلہ سازوں کی مثالی کارکردگی اور عملی نتائج جس میں مالی سال کے 8 ماہ کے دوران 41 فیصد زیادہ محصولات اکٹھا کرنا بھی شامل ہے کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اہلکاروں کی خصوصی اعزازیہ دینے کی منظوری بھی دی تھی۔محکمہئ مال کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کے 30 اضلاع میں کی گئی کاروائیوں میں 4100 کنال اراضی واگزار کرائی گئی ہے جس میں صوبائی دارالحکومت (ضلع) پشاور کی حدود میں 668 کنال اراضی کی مالیت 39 ارب روپے بتائی گئی ہے جبکہ ہنگو 1143 کنال (مالیت 238 ارب روپے)‘ مردان میں 322 کنال (مالیت 15 ارب روپے)‘ ایبٹ آباد 82 کنال (مالیت 2.57 ارب روپے)‘ ڈیرہ اسماعیل خان 276 کنال (مالیت 2.15 ارب روپے)‘ نوشہرہ 477 کنال (مالیت 1.2 ارب روپے)‘ چارسدہ 326 کنال (3.9 ارب روپے)‘ لکی مروت 71 کنال‘ بونیر 67 کنال‘ بنوں 66کنال‘ ہری پور 34کنال اور مانسہرہ میں 33 کنال اراضی شامل ہے اور اِسی قسم کے اعدادوشمار دیگر اضلاع کے بھی ہیں‘ جہاں اراضی کی قیمت اگرچہ کم ہے لیکن وہاں کے اہم ترین سرکاری اراضی پر قبضے ختم ہونا اپنی ذات میں بڑی بات ہے۔ محکمہئ مال کی ذمہ داریوں میں ’لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘ بھی شامل ہے اور یہ عمل 2013ء سے جاری ہے لیکن مکمل نہیں ہوا جو اِس حقیقت کا بیان ہے کہ سرکاری ادارے اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ محکمہ مال کی کارگزاری اپنی جگہ قابل تعریف‘ قابل ذکر (مثالی) لیکن قبضہ مافیا کو ’نشان ِعبرت‘ بنائے بغیر اُن رجحانات کی حوصلہ شکنی نہیں ہو پائے گی جو سرکاری و نجی اراضی کو قبضہ کرنے والوں کے ہاں پائے جاتے ہیں‘تاہم اس معاملے میں سرکاری ملازمین کے سخت اور باقاعدہ احتساب کویقینی بنانے کی ضرورت ہے‘ سازوں کو برطانیہ کی طرز پر سرکاری ملازمین کا احتساب کرنا چاہئے جہاں کسی ملازم کی زیادہ سے زیادہ گزشتہ بیس برس کی تنخواہوں کو دیکھا جاتا ہے اور اُس کا ملازمتی عرصہ بیس برس سے کم ہو تو ایسی صورت کل ملازمتی عرصے کے دوران وصول شدہ تنخواہ و مراعات (یعنی مجموعی آمدنی) کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کے زیراستعمال اور اُس کے اپنے نام اور بیوی بچوں کے نام پر اثاثہ جات کی تفصیلات دیکھی جاتی ہیں۔