افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ نے اپنی نئی حکومت کو پیغام دیا ہے کہ شرعی قانون کو برقرار رکھاجائے۔ طالبان کے سپریم کمانڈر نے نئی کابینہ کے اعلان کے بعد اپنے پہلے پیغام میں کہا ہے کہ میں ملک میں رہنے والوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک کو اوپر لے جانے کیلئے سخت محنت کریں گے، اسلامی اصول اور شرعی قانون کو برقرار رکھا جائیگا۔انہوں نے افغان عوام سے کہا کہ نئی قیادت پائیدار امن، خوشحالی اور ترقی کو یقینی بنائے گی، لوگوں کو ملک چھوڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ امارت اسلامی کو کسی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ملا ہیبت اللہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نظام اور ملک کو مضبوط بنانے میں سب حصہ لیں گے اور ہم اپنے جنگ زدہ ملک کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔ طالبا ن نے وزیراعظم احمد حسن اخوند کی سربراہی میں ستائیس رکنی عبوری حکومت کا اعلان کیا ہے۔ طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ نئی انتظامیہ عبوری ہے جس میں بعد ازاں ترمیم کی جا سکتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت سازی میں رنگ و نسل کا امتیاز نہیں برتا گیا، نئی حکومت کسی لسانی گروہ کی نہیں بلکہ پورے افغانستان کی نمائندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیں گے نہ ہی کسی کو ہمارے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کی اجازت دی جائے گی۔امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جس کا خدشہ طالبان نے پہلے ہی ظاہر کیا تھاکہ اگر طالبان افغانستان کے تمام لسانی، علاقائی، مذہبی اور نسلی گروہوں کو نمائندگی دے کر وسیع البنیاد قومی حکومت بھی قائم کریں گے تو امریکہ اور اس کے حواری ہماری حکومت تسلیم نہیں کریں گے عوامی جمہوریہ چین نے سب سے پہلے طالبان حکومت سے تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا۔ چینی وزیرخارجہ نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان کی آزادی، علاقائی سالمیت اور خود مختار ی کا احترام کرتے ہیں انہوں نے افغان عوام کیلئے فوری مالی امداد کا بھی اعلان کیا۔جبکہ پاکستان نے بھی تین سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے غذائی او طبی سامان کابل پہنچاکر دوسرے ممالک کیلئے قابل تقلید مثال قائم کی ہے اور اس ان ابتدائی فلائٹس کے بعد زمینی راستے سے افغانستان کو امدادی اشیاء پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ امریکہ، یورپی،افریقی اور خلیجی ممالک افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلقات قائم کریں گے۔ تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کیلئے فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اور مالی امداد سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر اور فوری طور پر پہنچانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان گذشتہ پچاس سالوں سے دو سپر طاقتوں کی فوجی مداخلت اور باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے۔ اس کی تعمیر نو میں بھی کئی عشرے لگ سکتے ہیں لیکن وہاں بسنے والے انسانوں کو بھوک، افلاس اور بیماریوں سے بچانے کیلئے انسانی بنیادوں پر مدد درکار ہے۔ جس کیلئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم اور عالمی برادری کو انفرادی طور پر بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ تباہ حال افغانستان میں انسانی المیے کوروکا جاسکے۔اس سلسلے میں افغانستان کے دیگر پڑوسی ملکوں کو بھی پاکستان اورچین کی تقلید کرتے ہوئے مالی و انسانی امدادکی صورت میں حق ہمسائیگی ادا کرنا چاہئے۔