شاعر فرخ عدیل نے طرحی مشاعرے کے دوران ایک زمین میں خوبصورت شعر باندھا تھا کہ جس کی گونج ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئی ہے ”اَے باد ِستم خیز! تیری خیر کہ تو نے …… پنچھی وہ اُڑائے ہیں‘ جو اُڑنے کے نہیں تھے۔“ حالیہ بارش (آٹھ ستمبر) سے زیادہ اہل پشاور پر حیرت برسی ہے جن کیلئے ایک کے بعد ایک بارش ’ستم خیز‘ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ موسم کو خوشگوار کرنے والی بارش نعمت سے زیادہ زحمت بن کر اُترتی ہے اور صوبائی دارالحکومت (پشاور) سے نکاسیئ آب کے ناکافی نظام اور خرابیوں کو ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عیاں کر دیا ہے۔ بنیادی ضرورت نکاسی کی راہ میں حائل رکاوٹیں (تجاوزات) ہیں جن کی نشاندہی بار بار اور لگاتار کی جاتی ہیں۔ متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے بیانات اور کچھ وقتی اقدامات اس مسئلے کا حل ثابت نہیں ہورہے ہیں لیکن صرف تجاوزات ہی نہیں بلکہ شہری زندگی کے کسی بھی مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں ہو سکا اور یہی وہ مرحلہ ہے جسے لمحہ فکریہ قرار دیا جاسکتا ہے، پشاور کے وہ 22 مقامات معلوم ہیں جہاں تجاوزات کی وجہ سے نکاسیئ آب کی روانی متاثر ہوتی ہے یعنی مرض کی تشخیص ہو چکی ہے لیکن اِس کا علاج نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اِن کے علاوہ درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں بارش کا پانی جمع ہونا ایک معمول بن چکا ہے جس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ نکاسیئ آب کے راستوں پر رکاوٹیں ہیں بلکہ کئی مقامات پر سڑکیں‘ فٹ پاتھ اور گلی کوچے اِس انداز سے بنائے گئے ہیں کہ اِن سے پانی اطراف کی نالیوں میں جانے کی بجائے سڑک کے درمیان بہتا ہے اور بارش کی صورت پشاور کی سڑکیں برساتی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
مسئلہ (قضیہ) صرف بارش کے پانی کی نکاسی کا نہیں بلکہ پشاور سے ہونے والی نکاسی کے مجموعی و عمومی نظام کی توسیع و بحالی کا ہے کہ فیصلہ سازوں سے فیصلہ سازی اور احکامات و ہدایات سے کاروائیوں جیسے عملی اقدامات تک ہر مرحلے میں پشاور کے اجتماعی مفاد کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ یہ کمی الگ سے محسوس ہو رہی ہے کہ پشاور کے ’نبض شناس‘ نہیں رہے اگرچہ ہر سطح پر پشاور کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کا شمار اُنگلیوں پر ممکن نہیں ہے۔ اپنی جگہ یہ منفرد اعزاز بھی صرف پشاور ہی کو حاصل ہے جس نے شاید اِسے دنیا کا واحد ایسا شہر بنا دیا ہے کہ جہاں سارا سال تجاوزات کے خلاف متعلقہ حکومتی اداروں کی کاروائیاں جاری رہتی ہیں اور سارا سال ہی تجاوزات بھی قائم ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں پختہ‘ غیرپختہ‘ مستقل اور غیرمستقل تجاوزات کی بھرمار اگر کسی ایک طبقے کو دکھائی نہیں دے رہی تو وہ ہمارے فیصلہ ساز ہیں۔ کم و بیش سبھی بازاروں کی سطح پر تاجروں اور دکانداروں کی تنظیمیں موجود ہیں‘ جن کے نمائندے تجاوزات کے انسداد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دیگر شہروں کی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن تجاوزات سے نفرت اور لاتعلقی عام ہونے کے باوجود اگر یہ ختم نہیں ہو رہیں تو اِس میں قصور کس کا ہے؟ تجاوزات کے خلاف پرعزم کاروائی کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ کو تاجر تنظیموں کے نمائندوں کو شریک سفر کرنا چاہئے۔ تجاوزات قائم ہوتے ہی فوری اطلاع اور فوری کاروائی کیلئے ہیلپ لائن نمبر کا اجرأ اور اطلاع نہ دینے کی صورت میں متعلقہ تاجر تنظیم کے نمائندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے کیونکہ دوسری کوئی ایسی صورت (قابل عمل حل) نہیں رہا کہ جس کا تجربہ نہ کیا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں جسے حل نہ کیا جا سکے تاہم اس کے لئے مربوط کوششوں اور منظم انداز میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور جہاں تک پشاور میں نئی آبادیوں کی بات ہے تو یہاں پر نہ تو نکاسی کے حوالے سے پلاننگ کی جاتی ہے اور نہ ہی دیگر ضروری تقاضوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس ضمن میں خاص دلچسپی لیتے ہوئے مذکورہ بالا مسائل کے حل میں عملی پیش رفت کا مظاہرہ کرے۔ ”تم سے تو کوئی شکوہ نہیں چارہ گری کا …… چھوڑو یہ مرے زخم ہی بھرنے کے نہیں تھے (طارق سلطانی)۔“