صائب الرائے تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی (پیدائش دس ستمبر اُنیس سو چون، وفات نو ستمبر دوہزاراکیس) آپ ایک عرصے سے سرطان (کینسر) کے مرض میں مبتلا تھے‘ جس کا مقابلہ کرتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے‘ اَفغانستان میں روس کی فوجی مداخلت (24 دسمبر 1979ء سے 15 فروری 1989ء) کے دوران اور اِس فوج کشی کو ختم کرنے کے لئے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کا دور کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور سوشل میڈیا جیسی ترسیلی سہولیات کا حامل نہیں تھا‘خبر نگاری تجزیہ کاری سے زیادہ مشقت و محنت طلب کام اُسے ارسال کرنا ہوتا تھا جس کے لئے ایڈروڈز کالج کے سامنے پوسٹ آفس میں غیرملکی اداروں کے لئے کام کرنے والے صحافیوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں جو اپنے اپنے دفاتر ”وائر‘‘کے ذریعے خبریں اور ڈرم اسکینگ کے ذریعے تصاویر بھیجتے تھے اُس دور میں جبکہ گوگل کے ذریعے تلاش ممکن نہیں تھی اور عالمی معیار کے مطابق صحافت کرنے سے بھی ہر کس و ناکس آشنا نہیں تھا تب رحیم اللہ یوسفزئی نے کراچی‘ اسلام آباد اور پشاور کے اخبارات میں کام کرنے کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے افغان امور کے بارے میں اِس انداز سے خبرنگاری کی کہ اُن کے تجزئیات کی روشنی میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کے خدوخال درست کئے جاتے تھے‘ خیبرپختونخوا میں صحافتی اقدار کو متعارف اور صحافتی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے میں رحیم اللہ یوسفزئی کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا جن کا ثانی نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا‘ افغانستان کے عسکریت پسند رہنماؤں بشمول القاعدہ تنظیم کے سعودی عرب نژاد سربراہ اسامہ بن لادن اور افغان طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا عمر سے بات چیت کے ذریعے رحیم اللہ یوسفزئی نے عالمی شہرت پائی‘ایک وقت تھا جب مغربی ذرائع ابلاغ اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے علاوہ غیرملکی سفارتخانوں کیلئے رحیم اللہ یوسفزئی سے زیادہ افغان امور سے متعلق صائب الرائے شخص کوئی دوسرا نہیں تھا اور یہی وہ دور تھا جب رحیم اللہ یوسفزئی درجنوں ملکی و غیرملکی نشریاتی و اشاعتی اداروں کیلئے باقاعدگی سے اور بے تھکان لکھتے تھے لیکن صحافت سے اُن کی وابستگی اور لگاؤ صرف ملازمت ہی کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اُنہوں نے صحافت میں آنے والی تبدیلیوں اور ابلاغ کے جدید ترین وسائل (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے برق رفتار اسلوب پر نظر رکھی اور سنسنی خیزی کی بجائے ہمیشہ تحمل کو اہمیت دی، فوری خبر کے دور میں سچائی و غیرجانبداری پر سمجھوتہ نہیں کیا اور صحافت کی چاشنی‘ تازگی و اقدار کے بہرصورت علمبردار رہے اور تنقیدی صحافت سے الگ رہے کیونکہ وہ شروع دن سے جانتے تھے کہ تنقیدی نظریات میں کوئی فلسفیانہ سچائی نہیں ہوتی کہ جسے مجرد فلسفیانہ طور پر ثابت کیا جا سکے اور یہی نظریہ اُن کی پوری عملی زندگی پر حاوی اور صحافتی کامیابی کا نچوڑ ہے،رحیم اللہ یوسفزئی اپنی ذات میں ایک جامعہ تھے اُن کے علاوہ راقم کو کسی ایسے ”ریذیڈنٹ ایڈیٹر‘‘کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا جو اپنی ٹیم کے ہر رکن کی کمزوریوں اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُس کی انفرادی اور پوری ٹیم کی اجتماعی تربیت کا اہتمام نہ کرتا ہو‘خبرنگاری میں عالمی صحافتی اسلوب کے قواعد و ضوابط اور انگریزی لغت کے مطابق الفاظ کا درست انتخاب و موزوں استعمال شاید ہی اُن کے علاوہ کسی دوسرے کے ہاں اِس قدر اہتمام کے ساتھ ملے۔ صرف 2 مثالوں سے اُن کی باریک بینی اور انگریزی زبان کے قواعد کا لحاظ رکھنے میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا کہ رپورٹروں کی ہفتہ وار میٹنگ میں وہ اکثر انگریزی زبان میں شخصیات‘ مقامات یا القابات کا تعین کرنے والے (determiner) ’The‘ اور سنگل اور ڈبل ’کوٹیشن مارکس‘ کے درست استعمال کو مثالوں سے بیان کرتے جو بظاہر چھوٹی بات لگتی ہے لیکن جب ہم انگریزی صحافت کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی درست چیز اِس زبان کے قواعد و ضوابط پر عمل ہونا چاہئے، رحیم اللہ یوسفزئی بار بار غلطی کرنے پر بار بار اصلاح کرتے اور یہ بھی آپ ہی کا خاصہ (بڑا پن) تھا کہ ناراضگی یا غصے کا اظہار کبھی بھی آپ کے چہرے یا خطاب سے عیاں نہ ہوتا،رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ دو برس چند ماہ ایک ہی ادارے”اخباردی نیوز“ میں کام کرنے کے دوران متعدد مرتبہ اُن کے ہمراہ افغانستان سفر کرنے کا اتفاق ہوا‘ جن سے متعلق یاداشتوں کو چند سطور میں بیان کرنا ممکن نہیں‘ البتہ صرف ایک واقعہ قارئین کو اُن کی شخصیت کے ایک خاص پہلو سے روشناس کرانے اور رحیم اللہ یوسفزئی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے‘رحیم اللہ یوسفزئی کی محمد عمر نامی شخص سے قندھار میں پہلی ملاقات اُن کے ملا عمر بننے یعنی تحریک طالبان (افغانستان) کی بنیاد رکھنے سے کئی برس پہلے ہوئی تھی، فروری 1995ء میں تحریک طالبان افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں میں قائم کی گئی جب ملا عمر 35 برس کے تھے اور ملاعمر نے اُنہیں بتایا تھا کہ وہ اُن دنوں مدرسے میں زیرتعلیم تھے لیکن روس کے خلاف جہاد کیلئے اُنہوں نے مدرسے میں جاری تعلیمی عمل کو خیرباد کہا اور اپنے لئے ’طالب‘ کا لقب پسند کیا‘ جس کا مطلب علم کا متلاشی ہوتا ہے،رحیم اللہ یوسفزئی کی ایک مرتبہ نہیں بلکہ ملا عمر سے کئی ملاقاتیں رہیں اور چونکہ ملا عمر تصویر نہیں بنواتے تھے اور نہ ہی وہ دور ایسا تھا کہ جب ہر شخص کی جیب میں کیمرے والا موبائل ہوا کرتا تھا‘ دنیا ملا عمر کا چہرہ دیکھنا چاہتی تھی اور اِس میں مدد کرنے کے لئے رحیم اللہ یوسفزئی ہی واحد ایسی غیرملکی شخصیت تھے‘ جن کا اُن سے نہ صرف ملاقاتوں بلکہ بعدازاں بھی رابطوں کا سلسلہ رہا، روس کی شکست کے بعد ایک مرحلہ وہ آیا جب امریکہ اور اتحادی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کر دی اور یہ وہ وقت تھا جب رحیم اللہ یوسفزئی دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور آپ نے خاص دفتری امور کے علاوہ دیگر معمولات ترک کر دیئے تھے۔ ڈاکٹروں نے زیادہ مشقت حتیٰ کہ ہوائی جہاز کے سفر سے بھی منع کیا تھا کہ اُنہیں ملا عمر کی طرف سے ملاقات کی خواہش کا پیغام ملا تو اُن کے چہرے پر سنجیدگی مزید بڑھ گئی تھی جس سے متعلق پوچھنے پر بتایا کہ اگرچہ میرا ہوائی سفر کرنا میری زندگی کے لئے خطرہ ہے لیکن مجھے کوئٹہ اور وہاں سے براستہ سڑک قندھار جانا پڑے گا لیکن ”آپ کی صحت اتنا طویل اور پرخطر سفر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی؟“ میرے اِس سوال پر اُنہوں نے کہا کہ ”ایک وقت تھا جب دنیا ملاعمر سے بات کرنا چاہتی تھی اور اُس وقت اُنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا کہ میں اُن کے مؤقف کو پوری ایمانداری سے پیش کروں گا اور اب جبکہ دنیا اُن سے کترا رہی ہے اور میں خرابی صحت کے جواز پر اُن سے ملاقات نہ کروں تو کہیں میری صحافتی ایمانداری اور غیرجانبداری سے متعلق اُن کی رائے تبدیل نہ ہو جائے۔اور پھر وہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر ہوائی و زمینی سفر پر گئے جو اپنی جگہ سکیورٹی خطرات سے بھی بھرپور تھا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ خلائی سیاروں اور ڈرون طیاروں سے ہر راہداری کی نگرانی ہو رہی تھی تو افغانستان کا دورہ اُن کی مہم جو طبیعت کا عکاس تھا، وہ ایک نہایت ہی مشکل پسند اور مستقل مزاج انسان تھے۔ اپنی بودوباش انتہائی سادہ اور متوازن رکھی۔ وہ ترک دنیا کی عجیب و غریب مثال تھے کہ بیماری کی شدت کے آخری چند ماہ (دوہزاراکیس کے آغاز سے 9 ستمبر تک) کے علاوہ اُنہوں نے کبھی بھی لکھنا ترک نہیں کیا۔ دی نیوز میں اُن کی آخری تحریر ’21 جون 2021ء‘ کے روز شائع ہوئی جو ’نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی‘ سے متعلق تھی جبکہ ہفتہ وار اشاعت ’دی نیوز آن سنڈے (TNS)‘ کے لئے اُن کی آخری تحریر ’7 فروری 2021ء‘ کے روز شائع ہوئی جو عسکریت پسند رہنما منگل باغ کی ہلاکت سے متعلق ماضی و حال کی اطلاعات کے جائزے پر مشتمل تجزیہ تھا۔ روزنامہ آج کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ رحیم اللہ یوسفزئی کی تحریروں کو ”دی نیوز“ سے ترجمہ اور تلخیص کرکے شائع کیا جاتا رہا‘ جن کے لئے اُنہوں نے ”دامن تاتارا سے‘‘کا عنوان منتخب کیا تھا۔ یہ تراجم روزنامہ آج کی ویب سائٹ (dailyaaj.com.pk) کی ذیل میں کالم نگاروں (columnisit) کے شعبے میں رحیم اللہ یوسفزئی (rahimullah-yousafzai) کی تلاش سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کا قومی اعزاز ”ستارہئ امتیاز“ عالمی سطح پر نمایاں خدمات یا ملک کے لئے سفارتکاری کرنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی بھی ”ستارہئ امتیاز“ کے حامل تھے‘ جن کی رحلت سے ایک ستارہ غروب ہوا ہے اور اِس پر نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ قومی سطح پر صحافتی حلقے اداس ہیں، وزیراعظم عمران خان سے لیکر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور صحافیوں کی قومی نمائندہ تنظیم (فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) کی جانب سے تعزیتی بیانات جاری ہوئے ہیں۔ التماس دعا ہے کہ قارئین اوّل آخر درود شریف (صلوۃ) کے ساتھ ایک مرتبہ سورہئ فاتحہ اور تین مرتبہ سورہئ اخلاص کی تلاوت (فاتحہ) کا ہدیہ ایصال ثواب کریں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کے درجات بلند سے بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین)