پشاور کہانی: فنکار مہاجرین 

خیبرپختونخوا کے لوک فنکاروں کی نمائندہ تنظیموں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بے سروسامانی کی حالت میں پشاور پہنچنے والے افغان مہاجر فنکاروں کی مدد کی جائے۔ اطلاعات کی بنیاد پر اندازہ ہے کہ طورخم اور سپین بولدک سے پاکستان داخل ہونے والے اِن افراد کی تعداد پچاس کے قریب ہے اور یہ کباڑی بازار (پشت قصہ خوانی) اور شہر کے اُن حصوں میں آباد ہوئے ہیں جہاں پہلے سے لوک فنکار رہتے تھے۔ پشاور شہر کی حدود میں افغان مہاجرین کی آمد کا یہ سلسلہ حال ہی میں شروع ہوا ہے اور پشاور پہنچ کر مہاجرت اختیار کرنے والوں کی قانونی حیثیت کیا ہوگی‘ اِس سلسلے میں اقوام متحدہ کا ادارہ ایسے مہاجرین کی درخواست پر کیا کاروائی کرے گا اور پاکستان کی حکومت نئے مہاجرین کی رجسٹریشن کو تسلیم کرے گی یا نہیں‘ یہ سبھی سوالات غورطلب ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے یہ صورتحال پریشان کن ہے کہ اگر مہاجرین کی آمد کا سلسلہ (رجحان) چل نکلا اور اِنہوں نے اندرون شہر کے علاقوں میں بنا رجسٹریشن پہلے سے مقیم فنکاروں کے ساتھ رہنا شروع کیا تو تھوڑے عرصے کے بعد ایسے افراد کی شناخت یا کھوج ممکن نہیں رہے گی۔پشاور ایک مرتبہ پھر ’انصار‘ کا کردار ادا کرنے کی تیاری میں ہے تاہم فرق یہ ہے کہ اِس مرتبہ افغانستان سے آنے والوں کے پاس سفری دستاویزات جس میں دو بنیادی چیزیں افغان پاسپورٹ اور پاکستان کا ویزا موجود ہیں اور اِسی کی بنا پر اُنہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے تاہم ویزے کی مدت مکمل ہونے سے پہلے یہ سبھی لوگ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) سے رابطہ کرسکتے ہیں اور پاکستان میں اپنی مہاجرت کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ عالمی معاہدوں کے تحت مہاجرت کی درخواست موصول ہونے کے بعد ’یو این ایچ سی آر‘ پیش کردہ حقائق‘ بیانات و شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ مہاجرت کیلئے درخواست گزار کی جان و مال کو واقعی اپنے آبائی ملک میں خطرہ ہے اور اگر ایسا ثابت ہو جائے تو اُسے بطور مہاجر رجسٹر کر لیا جاتا ہے جس کا مطلب اُسے اشیائے خوردونوش اور سازوسامان کی صورت عالمی امداد ملنا شروع ہو جاتی ہے لیکن پاکستان پہنچنے والے افغانوں کی بڑی تعداد ایسے مہاجرین کی بھی ہے جو پاکستان پہنچنے کے بعد مقامی طور پر مہاجرت کی درخواست دینے کی بجائے غیرملکی سفارتخانوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں بطور مہاجرت منتقل ہونے کیلئے درخواست دیتے ہیں جنہیں مہاجرت کی درخواست موصول ہونے کے بعد سند مل جاتی ہے اور اِس سند کی بنیاد پر اُنہیں پاکستان میں قیام کیلئے جاری کردہ ویزے میں توسیع مل جاتی ہے۔ یہاں ایک کردار ٹریولنگ ایجنٹس اور ایسے کرداروں کا بھی ہوتا ہے جو پشاور پہنچنے والے مہاجرین کو قانونی دستاویزات حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور اِس سلسلے میں اُنہیں قبائلی اضلاع میں رکھا جاتا ہے جہاں سے ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کے پہلے سے درج کوائف میں اِن افراد کو شامل کر لیا جاتا ہے اور وفاقی حکومت نے اِس بے قاعدگی کو روکنے کیلئے شناختی کوائف کی تصدیق کا عمل شروع کر رکھا ہے جس میں خاندان کے ہر سربراہ کو اپنا قومی شناخت کارڈ نمبر اور اُس کے اجرأ کی تاریخ (اپنے نام پر رجسٹر موبائل فون نمبر یا کسی بھی موبائل فون نمبر) لکھ کر 8009 پر مختصر پیغام (SMS) کی صورت ارسال کرنے کا کہا گیا ہے جس کے بعد اُس کے خاندان کے کل افراد کی تفصیلات (family tree) بذریعہ SMS ہی ارسال کر دی جاتی ہے اور اگر کسی شخص کو غیرمتعلقہ شخص اپنے خاندان کا حصہ دکھائی دے تو اُسے بذریعہ فون یا قریبی ’نادرا‘ دفتر سے رجوع کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اِس طرح سے ہر خاندان کے کوائف کی تصدیق کا عمل متعارف کرانے والا پاکستان پہلا ملک ہے لیکن یہ ’آن لائن تصدیق‘ کی کوشش تبھی کامیاب ہوگی جب ہر خاص و عام اِس میں تعاون کرے اور اِس بات کی اہمیت کو سمجھے کہ کسی غیرمتعلقہ شخص کے کوائف کسی خاندان میں درج ہونے کے نقصانات کیا ہیں اور اگر وہ غیرمتعلقہ شخص یا اشخاص (مرد و خواتین) کسی قسم کی قانون شکنی (جرم) کے مرتکب ہوتے ہیں تو ایسی صورت یہ بات کتنی بڑی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ افغان فنکاروں کا جو کم و بیش پچاس رکنی دستہ پشاور پہنچا ہے یہ پہلا تو ہے لیکن اِسے آخری نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ دارالحکومت کابل کے علاوہ ہرات‘ جلال آباد‘ قندھار اور مزار شریف میں بھی پاکستانی سفارتخانے فعال ہیں جہاں سے مختلف وجوہات بشمول علاج معالجہ‘ تجارت‘ سیروتفریح یا مختصر قیام و راہداری کیلئے پاکستانی ویزے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پندرہ اگست کے روز‘ افغان طالبان کے دارالحکومت کابل میں داخلے سے قبل پاکستان کی جانب سے مزید افغان مہاجرین کو قبول نہ کرنے سے متعلق وضاحت سامنے آ چکی ہے اور اگرچہ کئی ممالک اور بالخصوص اَقوام متحدہ نے پاکستان کو اپنے اِس فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن کورونا وبا اور ملک کی داخلی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے جس احتیاط کا مظاہرہ کرنے سے متعلق حکمت ِعملی اختیار کی ہے اُس پر ثابت قدمی سے جمے رہنا چاہئے کیونکہ طالبان نے افغانستان پر عملداری قائم کرنے کے بعد جس قدر امن و امان قائم کیا ہے اور جس طرح وہاں جرائم و بدعنوانی کی شرح کم ہوئی ہے اُسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ’امارات ِاسلامی‘ کے باضابطہ اعلان و قیام سے افغانستان کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے۔ اطلاعات ہیں کہ طالبان کی جانب سے پاکستان کی جانب سفر کرنے والے افغانوں کے کوائف کی مختلف مقامات پر جانچ پڑتال (screening) کی جاتی ہے تاکہ بنا سفری دستاویزات رکھنے والوں کے علاوہ دیگر افراد کو پاکستان کی سرحدوں پر جمع ہونے نہ دیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ مہاجرین کے جس سیلاب کے پاکستان کی جانب اُمڈ آنے کی توقع تھی وہ رکا ہوا ہے۔ اہل پشاور کیلئے ’انصار‘ کا کردار ادا کرنے سے زیادہ بڑا اعزاز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا کہ یہ اعلیٰ انسانی اقدار اور شرافت کا عملی اظہار ہے لیکن ماضی کے تلخ و شرین تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاجرین کی آڑ میں پاکستان کی سلامتی کو عدم توازن سے دوچار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اُمید ہے کہ افغان بہن بھائی پاکستان کے انکار کو انکار سمجھنے کی بجائے داخلی سلامتی و خطرات سے جڑی مشکلات (مجبوریوں) اور وبائی ہنگامی صورتحال کے باعث پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔