یادش بخیر۔ ایک وقت تھا کہ ریڈیو پاکستان کے سٹوڈیوز پر بہار چھائی ہوئی تھی مگر جب پی ٹی وی کی ہوا چلی تو اس نے ریڈیو سے وہ ہما ہمی چھین لی حالانکہ ریڈیو سننے والوں کی کمی اب بھی نہیں، پھر پاکستان ٹیلی وژن پشاور مرکز میں دن بھر اور خصوصاً سر شام زندگی سے بھر پور ایک ہنگامہ پبا ہوا کرتا تھا اردو پشتو اور ہندکو ڈرامہ، ٹاک شوز اور موسیقی کے پروگرام ترتیب دیئے جاتے،ریہرسلز ہوتیں اور سٹوڈیوز میں تین تین شفٹوں میں ریکارڈنگز ہورہی ہوتیں، حالات حاضرہ کے پروگراموں کی اپنی ایک بہار ہوتی جس کی بنا ء پر باقی ٹیوی مراکز کی طرح پشاور مرکز میں بھی بڑے بڑے سیاسی زعما ء کی آمد و رفت جاری رہتی، چونکہ ایک ہی چینل تھا اس لئے ایک بار سکرین پر نمودار ہونے والا عام لو گوں میں مقبول ہو جاتا، اس لئے ہر شخص کی خواہش تھی کہ کسی طور وہ سکرین پر آ جائے جیسے ایک زمانے میں جب ٹی وی نہ تھا تو فلمی دنیا میں بڑی کشش تھی اور ہر نوجوان ہیرو بننے کے چکر میں لاہور اور بمبئی کا رخ کرتا۔ بہت سے تو سکرین پر کسی فنکارہ کے حسن یا اداکاری سے اتنے متاثر ہوتے کہ اپنے پسندیدہ فنکارہ کی ایک جھلک دیکھنے گھر بار چھوڑ کر سٹوڈیوز کے دروازوں کے سامنے صبح شام بیٹھے رہتے اور دل ہی دل میں آتشؔ کا شعر گنگناتے۔
کسی طرف سے تو نکلے گا آ خر اے شہ حْسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری
اس طرح کا عروج پھر پی ٹی وی نے بھی دیکھا فلم اور ٹی وی کے رکھ رکھاؤ میں بہت فرق تھا بلکہ ایک بار لیجنڈ فنکار محمد علی نے ٹی وی پر کام کرنے کی بات کی تھی تو مزاحیہ ڈراموں کے بڑے فنکار عمر شریف نے اس پر تبصرہ کیا تھا کہ ٹی وی پر کام کرنے کے لئے فلم کے فنکاروں کو پہلے آہستہ بولنے کی تربیت حاصل کر نا ہو گی لیکن محمد علی کی اس خواہش کے پیچھے در اصل ٹی وی کے فنکاروں کا سماج میں بہت زیادہ پاپولر ہو نا تھا کہ فلم بینوں کی تعداد گھر گھر دیکھے جانے والے ٹی وی کی نسبت بہر حال محدود تھی حالانکہ اسی زمانہ میں فلمسٹار جاوید شیخ جو بنیادی طور پر ٹی وی سٹار تھے نے انور مقصود کے شو میں کہا تھا(الفاظ یقینا انور مقصود کے رہے ہوں گے) کہ مجھے فلم او ٹی وی میں کام کرنے میں صرف ایک ہی فرق نظر آیا کہ جب فلم کے معاوضہ کا چیک بینک میں جمع کراتا ہوں تو اس سے زکواۃ کٹ جاتی ہے مگر جب ٹی وی سے ملنے والے چیک جمع کرتا ہوں تو مجھے ان پر بینک اپنی طرف سے زکواۃ دے دیتا ہے۔ بہر حال ٹی وی نے اکلوتا چینل ہونے کے زمانے میں بہت سنہرا زمانہ دیکھا ہے۔ہر سنٹر میں اچھا خاصا رونق میلا لگا رہتا تھا۔ ڈرامہ کے فنکار تو ایک رہے باقی شعبوں کے دوست بھی حا لات حاضرہ کے پروگراموں کے علاوہ بھی شریک ہو تے، میرے پاس جب بھی موسیقی سے ہٹ کے کوئی شو آتا تو میری کوشش ہوتی کہ نئے لوگ اس بہانے ٹی وی کی دنیا میں آئیں،ٹی وی پروڈیوسرز اپنی مصروفیت کی وجہ سے کم کم ٹیلنٹ ہنٹ کے چکر میں پڑتے تا ہم عتیق صدیقی ایک ایسے پروڈیوسر تھے جو نہ صرف شہر کی ثقافتی تقریبات میں بھی شریک ہوتے بلکہ ادبی محافل سے ان کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے ٹی وی کینٹین میں کتنی ہی نشستوں کا اہتمام کیا، بلکہ انہوں نے پہلی بار ٹی وی سے پیش کئے جانے والے ڈراموں اور شوز پر تنقیدی نشست کا ڈول ڈالا۔ خصوصاً رمضان میں حلقہ ارباب ذوق کی بیشتر تنقیدی نشستیں بھی ٹی وی ہی میں ہو تیں اور عتیق صدیقی ان کے میزبان ہوتے چونکہ خود ایک عمدہ لکھاری،کالمسٹ،تجزیہ کار اور دانشور ہیں اس لئے وہ یہ سب کر گزرتے تھے، میں نے طارق سعید کے لئے ایک شو کیا تھا اور پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی بار میں نے باقاعدہ تنقیدی نشستوں کو سکرین پر متعارف کرایا تھا۔ جس کی وجہ سے کل اور آج کے بہت سے مقبول شاعر ادیب پہلی بار سکرین پر آئے۔ سب تو نہیں مگر بہت سے پروڈیوسر نہ صرف فنکاروں مگر عام لوگوں سے بھی (جانے کیوں) فاصلہ پر رہنا پسند کرتے تھے، سو ہر عروج کی قسمت میں زوال لکھا ہوا ہے، چینل آگئے پی ٹی وی تما م تر دعوؤں کے باوجود اپنی وہ مقبولیت کھو چکا ہے اور چھوٹی سکرین پر چینلز پر لگے جمعہ بازار نے مقبولیت حاصل کی مگر خیر چینلز کے عروج کا دور بھی مختصر ہی ٹھہرا کیونک اب سوشل میڈیا کی دھوم ہے،ذاتی یوٹیوب چینلز کا چلن عام ہو گیا ہے اور کون جانے آنے والا کل ایک اور تماشا لے آئے جو قتیل شفائی کی زبان میں بر ملا کہہ رہا ہو۔
ہم تم سے چھین لیں گے یہ شان بے نیازی
تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے