پشاور کہانی: حد بَراری

صوبائی دارالحکومت کو تجاوزات سے پاک کرنے کا عزم پھر سے جاگ اُٹھا ہے اور اِس سلسلے میں کئے گئے ”سخت فیصلے“ کی روشنی میں عملی اقدامات کا آغاز 11ستمبر سے کر دیا گیا ہے جس کی تفصیلات میں ضلعی انتظامیہ (کمشنر پشاور) کی ہدایات پر اندرون شہر کے 17 مرکزی بازاروں کا انتخاب کر کے اُن کی ”حد براری“ اَزسرنو کرنے کا حکم شامل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ”حد براری“ اراضی کی پیمائش کے اُس خاص عمل (طریقے) کو کہتے ہیں جس میں کسی مقام پر سرکاری و نجی اراضی میں تمیز کی جاتی ہے۔ دونوں کے رقبے الگ الگ وضع کئے جاتے ہیں اور یوں اراضی کے دونوں فریق (سرکار اور نجی مالکان) کی حدود کا تعین کر دیا جاتا ہے جس سے گزرگاہیں‘ راہداریاں‘ شاہرائیں‘ فٹ پاتھ اور نالے نالیوں پر قائم تجاوزات عیاں (ظاہر) ہو جاتی ہیں۔ 
پشاور شہر کے 17 بازاروں میں فی الوقت ’حد براری‘ کا درپیش مرحلہ ’ٹاؤن ون‘ پر مشتمل انتظامی بندوبست سے متعلق ہے اور اِس عمل کی تکمیل محکمہئ مال (ریونیو سٹاف) کی زیرنگرانی ’ٹاؤن ون‘ کی انتظامیہ سرانجام دے رہی ہے جس کیلئے تشکیل کردہ ٹیم میں ٹاؤن ون کی آرکیٹیکٹ (نقشہ نویس) فاخرہ گل کو بھی بطور خاص شامل کیا گیا ہے تاکہ ”حدبَراری“ کے عمل میں پرانے نقشہئ جات کی مدد سے نئے نقشہ جات تخلیق کئے جا سکیں۔ کسی بازار کی ”حد بَراری“ کرنے کا روایتی طریقہ بیک وقت ’اِنتہائی مشکل‘ اور ’اِنتہائی آسان‘ ہو سکتا ہے۔ مشکل اِس صورت میں کہ اگر قدم قدم پر پیمائش کی جائے تو ظاہر سی بات ہے کہ تاجر تنظیمیں خاموش تماشائی نہیں رہیں گی بلکہ ہر ممکنہ مزاحمت کریں گی‘ کہیں تعاون نہیں کیا جائے گا یا تاخیری حربے اختیار کئے جائیں گے تاکہ ”حدبراری“ ناکام ہو اور یہاں اندیشہ نقص امن کا بھی ہے۔ دوسری طرف ’حد براری‘ کا عمل اِس طرح سے آسان ہو سکتا ہے کہ کسی بازار کے آغاز و اختتام اور اُس کے وسط کا تعین کرنے کے بعد سڑک کی پیمائش بمعہ فٹ پاتھ اور نکاسیئ آب کے نظام کر لی جائے اور اِس پیمائش کے مطابق تاحد نظر ’سیدھی لکیر‘ کھینچی جائے تو تجاوزات کی نشاندہی ازخود ہوتی چلی جائے گی۔”حد براری“ کے ذریعے تجاوزات کا تعین (نشاندہی) ہونے کے بعد اِن کے خلاف کاروائی کا مرحلہ قطعی آسان نہیں ہوگا اور یہی سب سے زیادہ ضروری و مشکل مرحلہ ہے کیونکہ صرف تاجر ہی نہیں بلکہ بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے راہ میں حائل ہوں گے چونکہ پشاور شہر کی حدود میں رہائشی و تجارتی مراکز کے درمیان تمیز نہیں رہی اور گلی گلی‘ محلے محلے بازار بن گئے ہیں جن کے خلاف کاروائی کی صورت وہاں کے رہائشیوں کے معمولات ِزندگی متاثر ہوں گے اور تاجر تنظیموں کے نمائندے ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی بازاروں سے ملحقہ رہائشیوں کو اشتعال دلائیں گے کہ وہ تجاوزات کے خلاف کاروائیوں پر احتجاج کریں کیونکہ اِس سے اُن کی بجلی و ٹیلی فون کی خدمات سمیت آمدورفت وقتی طور پر متاثر ہوئی ہوں گی۔ توجہ طلب ہے کہ اگر پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنا ہے اور پشاور تجاوزات کو تجاوزات سے پاک دیکھنا ہے تو اِس کیلئے ہر خاص و عام‘ ہر منتخب و غیرمنتخب نمائندے اور ہر متعلقہ و غیرمتعلقہ سرکاری ادارے کو اپنی اپنی بساط کے مطابق برداشت و تعاون کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ دوسری کوئی ایسی صورت نہیں کہ جادو کی چھڑی گھماتے ہی تجاوزات ختم ہو جائیں۔ ترجیح پشاور ہونا چاہئے۔ اہل پشاور کو ضلعی و بلدیاتی اہلکاروں سے ہر ممکنہ حد سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ تجاوزات ختم کرنا نہیں بلکہ اِن کی موجودگی مستقل مسئلہ ہے اور انسداد ِتجاوزات کے دوران پیش آنے والی تھوڑی سی تکلیف اگر کھلے دل سے برداشت کر لی جائے تو یہ بہت بڑی مشکل و پریشانی کا خاتمہ ثابت ہوگی۔ صوبائی حکومت اور ضلعی و بلدیاتی انتظامیہ (کمشنر و ٹاؤن ون پشاور) جیسے بااختیار و مخلص فیصلہ سازوں کیلئے چند تجاویز بصورت معروضات پیش خدمت ہیں۔ حدبراری کے دوران ’گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS)‘ کا استعمال کیا جائے جو ایک خلائی سیاروں سے لئے گئے نقشہ جات پر منحصر ہوتا ہے اور اگر کسی موقع پر (توقع ہے کہ) تاجر تنظیمیں ’حدبراری‘ کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گی تو ایسی صورت میں ’جی پی ایس‘ کے ذریعے خلائی سیاروں کی مدد سے لی گئی تصاویر اور اُن کی مدد سے بنائے گئے نقشہ جات نہ صرف فی الوقت کسی ممکنہ قانونی کاروائی میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ اِن کا استعمال مستقبل کی شہری منصوبہ بندی (ٹاؤن پلاننگ) اور پانی‘ بجلی‘ گیس و ٹیلی فون جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ ’جی پی ایس‘ کی مدد سے ہر دکان‘ سڑک‘ فٹ پاتھ اور نالے نالیوں کی درست پیمائش بھی کمپیوٹروں کے ذریعے ممکن ہے جس میں معمولی غلطی کو عملی (فزیکل) پیمائشوں سے درست کیا جا سکتا ہے۔ حد براری کے ساتھ ٹاؤن ون اہلکاروں کو اِس بات کی ذمہ داری بھی سونپ دینی چاہئے کہ وہ پشاور کے ہر بازار میں دکانوں کے شمار‘ اِن کے کاروبار کی نوعیت (تھوک و پرچون)‘ اِن کے گودام‘ ذخیرہ شدہ مال کی نوعیت پر مبنی کوائف مرتب کریں اور اِن کوائف کو بھی پشاور کے ’ڈیجیٹل نقشے (Digital Mapping)‘ پر ثبت کر دیا جائے۔ تکنیکی طور پر اِس عمل کو ’جیوگرافل انفارمیشن سسٹم (GIS)‘ کہا جاتا ہے اور اگر کمشنر پشاور یا ٹاؤن ون کے پاس ’جی آئی ایس‘ جیسی تکنیکی سہولت یا تربیت یافتہ افرادی قوت موجود نہ ہو تو جامعہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی دیگر کئی سرکاری و نجی جامعات میں ’جی آئی ایس‘ کے شعبے موجود  ہیں جہاں کے اساتذہ اور زیرتعلیم طلبا و طالبات کیلئے عملی تجربات کرنے (سیکھنے سکھانے) کا یہ نادر موقع ہو سکتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ’GPS‘ اور ’GIS‘ جیسے امکانات سے استفادہ کرنے کی بدولت نہ صرف ”غیرمتنازعہ حدبراری“ ممکن ہو گی بلکہ پشاور کے بازاروں کو تجاوزات سے پاک کرنے کی کوشش پائیدار بھی ثابت ہو گی کیونکہ معاملہ گھمبیر ہے‘ کثیرالجہتی ہے کہ صرف بازار ہی نہیں بلکہ گلی کوچوں میں بھی تجاوزات قائم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پھولوں کا شہر اَب خیبرپختونخوا میں تجاوزات کا مرکزی شہر کہلاتا ہے! ”مائل ضبط بھی آمادہئ فریاد بھی ہے …… دل گرفتار ِمحبت بھی ہے‘ آزاد بھی ہے! (عرش ملسیانی)۔“