شاعر ”عتیق اللہ“ کا یہ شعر بیان ایک ایسی صورتحال کا عکاس ہے‘ جو پشاور کے مسائل کا جامع بیان قرار دیا جا سکتا ہے کہ ”آئینہ آئینہ تیرتا کوئی عکس …… اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے!“ اہل پشاور کی آنکھوں میں ہر خواب کے بعد بسنے والا دوسرا خواب کب شرمندہئ تعبیر ہوگا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اِس کے بارے میں سوچتے ہوئے مزید کئی سوالات جنم لیتے ہیں اور یوں خواب در خواب ہی نہیں بلکہ سوال در سوال کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ اہل پشاور کی اکثریت کیلئے یہ اَمر بھی سمجھ (منطق) سے بالاتر ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے کسی ایک حصے کو تجاوزات سے پاک کرنے اور تجاوزات کے مسئلے کا مستقل و پائیدار حل تلاش کرنے کیلئے ’نئی حد براری‘ کروائی جا رہی ہے جس کے ذریعے سرکاری اراضی کا تعین کیا جائے گا لیکن باقی ماندہ پشاور یعنی درجنوں تجارتی و رہائشی مراکز میں موجود تجاوزات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔بے ہنگم آبادی بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے ساتھ شہری سہولیات کے معیار و مقدار میں کمی اور ہر طرف تجاوزات کی کھلی چھوٹ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ اس حوالے سے غفلت برتی جار ہی ہے۔خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ (kp.gov.pk) پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور کا کل رقبہ 1257 مربع کلومیٹر ہے اور یہاں کی کل آبادی کا 48.49 فیصد شہری علاقوں میں جبکہ 51.51 فیصد دیہی علاقوں میں آباد ہے اور ہر خاندان میں اوسطاً 8.6 افراد بستے ہیں۔سرکاری دستاویزات کے مطابق سال 1950ء میں پشاور کی آبادی 1 لاکھ 52 ہزار 825 نفوس پر مشتمل تھی اور اگر اِس آبادی کا موازنہ آبادی کے موجودہ اعدادوشمار سے کرتے ہوئے شرح نمو اخذ کی جائے تو وہ تین سے چار فیصد سالانہ بنتی ہے یعنی حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال تین سے چار فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی شہر یا ملک کی آبادی سے متعلق اُن کے فراہم کردہ مردم شماری یا خانہ شماری کے اعدادوشمار کو من و عن دنیا تسلیم نہیں کرے گی بلکہ ایسے کئی آزاد ذرائع ہیں جو اپنے طور پر اور خلائی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر خانہ شماری کرتے ہیں جبکہ وہاں صحت و تعلیم کے نظام اور انتخابات کیلئے مرتب کی جانے والی ووٹر فہرستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مردم شماری کے کوائف میں اضافے کا سائنسی نتیجہ پیش کیا جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے فعال اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ’ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز پاپولیشن ڈائنامکس (population.un.org/wup) ہے اور اِس ویب سائٹ پر سال 2050ء تک ممالک اور اُن کے بڑے شہروں کی آبادی سے متعلق سائنسی بنیادوں پر مرتب کردہ اعدادوشمار (تخمینہ جات) موجود ہیں جو کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل (ڈاؤن لوڈ) کئے جا سکتے ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال 50 سے 70 ہزار افراد کا اِضافہ ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ 2035 تک جاری رہے گا‘ جس کی شرح میں کمی آبادی کنٹرول کرنے یا پشاور نقل مکانی کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے سے ممکن ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران پیش آنے والے واقعات بالخصوص قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا رخ پشاور کی جانب رہا۔ اِسی طرح افغان مہاجرین کیلئے پہلا پڑاؤ پشاور ہی ہوتا ہے جبکہ قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں ضم کرنے کے بعد بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے‘ جس کا ثبوت تین اطراف میں پھیلتا پشاور ہے کہ اِس کی آبادی میلوں پہلے شروع ہو جاتی ہے اور جی ٹی روڈ و رنگ روڈ کے اطراف میں وہ علاقے جو کبھی زرخیز زمینوں اور باغات کی سیر کرواتے نظاروں پر مشتمل ہوتے تھے اب رہائشی مراکز میں تبدیل ہو گئے ہیں‘آبادی میں اضافے کے ساتھ رہائش کا مسئلہ یقینا درپیش رہتا ہے تاہم اس کے لئے مربوط اور منظم پلاننگ کی جائے تو بڑی آبادی کو بھی آسانی کے ساتھ رہائشی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں اس وقت جو صورتحال ہے اسے دیکھ کریوں لگتا ہے کہ جیسے ”آئینہ عکس میں عکس آئینہ بردار میں گم“ ہو چکا ہو ”آئینہ عکس اور پس آئنہ بھی مست …… پوشیدہ مست خواب ہویدا‘ بھی مست مست (جاوید صباؔ)۔“