خیبرپختونخوا کے صوبائی فیصلہ سازوں پر مشتمل کابینہ اجلاس (تیرہ ستمبر دوہزاراکیس) میں دیگر امور کے علاؤہ ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز ایبٹ آباد (WSSCA)“ کیلئے نئے سربراہ (چیف ایگزیکٹو) کی منظوری دی گئی ہے‘ جس کا ایبٹ آباد کے رہائشی ایک عرصے سے منتظر (چشم براہ) تھے اور اُنہیں توقع ہے کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ اکٹھا اور اِسے تلف کرنے (سالڈ ویسٹ مینجمنٹ) جیسے 3 بنیادی کاموں کیلئے قائم ہونے والے اِس ادارے کی کارکردگی عملی اقداما ت کی صورت میں بہتری کی طرف گامزن ہوگی۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز ایبٹ آباد کیلئے نومنتخب سربراہ (چیف ایگزیکٹو آفیسر) کا تعلق آبائی طور پر ملتان سے ہے۔ایبٹ آباد کے باسیوں کیلئے نوید ہے کہ واٹراینڈ سینٹی ٹیشن سروسز کی سربراہی کیلئے موزوں شخص کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد کا نام ”واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز“ نامی ادارے کا حصہ ہے لیکن یہ صرف گنتی کی چند یونین کونسلوں میں خدمات سرانجام دیتا ہے۔اس مسئلے کا فوری حل نکالنے کی ضرورت ہے اورنئی انتظامیہ کی توجہ اولین طور پر ادارے کی کارکردگی کو ہر لحاظ سے مثالی بنانے پر مرکوز ہوگی۔۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ایبٹ آباد کی آبادی اور اِس آبادی کی ضروریات سے متعلق موجود ’اعدادوشمار‘ درست نہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں بنیادی پیمانہ ہی درست نہیں وہاں ناپ تول کیسے ممکن ہوگی۔ سال 2017ء میں (پندرہ مارچ سے پچیس مئی) ہوئی ملک کی چھٹی مردم و خانہ شماری اُنیس سال کے وقفے سے ہوئی جسے 22 دسمبر 2020ء کے روز وفاقی حکومت نے منظور کر لیا تاہم اِس کے نتائج متنازعہ رہے اور یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے آئندہ عام انتخابات سے قبل مردم شماری کروانے اور اِس مردم شماری کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی ازسرنو تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔ مردم شماری اور خانہ شماری کے نتائج ممکنہ حد تک درست ہونے کی ضرورت بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے اِنتہائی اَہم ہوتی ہے اور جس کی عدم موجودگی میں سماعتوں کو خوشگوار لگنے والی حکمت ِعملی کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ ایبٹ آباد میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ صفائی اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے کیلئے جس ادارے کیلئے نئے سربراہ کی منظوری دی گئی ہے سب سے پہلی ضرورت تو اُس ادارے کو کم سے کم ایبٹ آباد کے شہری علاقوں کی ہی یونین کونسلوں تک پھیلایا جائے۔ ایبٹ آباد کی کل 51 یونین کونسلوں تین تحصیلوں میں تقسیم ہیں اور اُن میں شہری علاقے کی صرف چار یونین کونسلوں میں رہنے والوں کو کسی نہ کسی صورت (ناکافی مقدار و بنیادی معیار کے مطابق) شہری سہولیات میسر ہیں تو یہ ایک ایسے شہر سے قطعاً انصاف نہیں جو نہ صرف ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا گیٹ وے ہے بلکہ اِسے تعلیمی اداروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ہونے کے ساتھ یہی بالائی علاقوں بشمول شمالی علاقہ جات اور چین تک جانے والے سیاحوں کا پہلا پڑاؤ بھی ہے۔ ایبٹ آباد کو انصاف چاہئے اور ایبٹ آباد سے انصاف کی توقع ہے۔