اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 

وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے لئے بلائے گئے اجلاس کو بتایاگیا کہ صوبہ بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کی چیکنگ،نرخ ناموں کی عدم دستیابی، ملاوٹ، غیر معیاری اشیاء کی فروخت، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف کاروائی کے دوران 38لاکھ 32ہزار روپے سے زائدجرمانے عائد کیے گئے، 304 ایف آئی آرز درج کی گئیں، 716 یونٹس سیل کئے گئے۔مقررہ نرخوں سے زائد قیمت وصول کرنے کی پاداش میں ساڑھے آٹھ لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے، 45 گرانفروشوں کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں اور 74 دکانوں کو سیل کیا گیا۔ نرخنامے آویزاں نہ کرنے پر ڈھائی لاکھ روپے جرمانے عائد کئے گئے اور 72 دوکانیں سیل کی گئیں۔اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیر اعلی کی زیر صدارت ہر ہفتے اجلاس منعقد کیا جائے گا۔وزیراعلی نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔وزیراعلیٰ نے مختلف محکموں کی طرف سے الگ الگ چھاپوں کا سلسلہ ختم کرنے اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی نگرانی کے لئے ضلعی انتظامیہ، فوڈ اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دینے کی ہدایت کی۔ کچھ جاری کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت یہاں اشیائے خوردونوش کی ہول سیل اورپرچوں قیمتوں میں فرق سب سے کم ہے۔چینی کے ہول سیل اور پرچون قیمت میں فرق صرف 2 فیصد ہے۔آٹے کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 3 فیصد سے کم ہوکر اب 2 فیصد پر آگیا ہے،مرغی کے گوشت کی ہول سیل اورپرچون قیمت میں فرق پچھلے ہفتے 9 فیصد سے کم ہوکر اب 6 فیصد پر آگیا ہے،ہمارے ملک میں صرف مہنگائی ہی عوام کا واحد مسئلہ نہیں۔ ملاوٹ، جعل سازی اور ذخیرہ اندوزی بھی بڑے مسائل ہیں۔ دودھ، آٹا، پکانے کا تیل، گھی،گوشت اور پانی بھی خالص نہیں ملتا۔ دودھ میں آدھا پانی اور آدھا کیمیکل ملاکر اصلی دودھ کی قیمت پر بیچا جاتا ہے‘ بعض جگہ آٹے میں خشک روٹی کے ٹکڑے پیس کر اور چوکر ملائے جاتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی ہڈیوں کے گودے پگھلا کر اور چربی میں کیمیکل ڈال کر انہیں بعض لوگوں کی جانب سے گھی اور کوکنگ آئل کا لیبل لگا کر بیچا جاتا ہے۔ چائے کی پتی میں لکڑی کے برادے، چنے کے چھلکے اور مصالحوں میں اینٹیں پیس کر ملائے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام اصلی چیز کی پوری قیمت دے کر نقلی اور مضرصحت اشیائے خوردونوش خریدنے پر مجبور ہیں۔ گذشتہ دوسالوں کے اندر ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں سو فیصد سے دوسو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک مجسٹریسی نظام بحال نہیں ہوتا۔ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، ملاوٹ، جعل سازی اور گرانفروشی پر قابو پانے کی باتیں دیوانے کا خواب ہیں۔