نئی بساط

افغانستان کے ”منظر‘ پس منظر اور پیش منظر“ میں حسب خواہش تبدیلیوں کیلئے ممالک کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں اور ایک مرتبہ پھر افغان سرزمین میں اپنے اپنے مفادات کے پھلدار اور سایہ دار اشجار (مواقع) تلاش کئے جا رہے ہیں۔ بالخصوص گزشتہ ماہ (پندرہ اگست دوہزاراکیس) دارالحکومت کابل پر عمل داری قائم کرنے سے شروع ہونے والے طالبان اِقتدار پر سب سے زیادہ گہری نظر اور افغان امور میں ہمیشہ سے بڑھ کر دلچسپی رکھنے والے امریکہ کیلئے بیس سالہ جنگی مہم (افغان مشن) کے غیرمتوقع اختتام سے بہتری کا آغاز کرنے کیلئے سفارتکاری کی ہلکی آنچ کو تیز کر دیا ہے اور ایک طبقہ سوشل میڈیا پر افغانستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو بڑھا چڑھا کر یا خبر پر مرچ مصالحے کا ترکہ لگا کر ایک ایسا ماحول تخلیق کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے جس سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کو حکومت کرنے کا موقع ملا تو اِس سے نہ صرف افغان تعمیروترقی کا عمل رک جائے گا بلکہ تعلیم و صحت‘ کھیل اور اقتصادی و مواصلاتی شعبوں میں جو نتائج  یاکامیابیاں حاصل ہوئی ہیں‘ وہ سب ضائع ہو جائیں گی۔ افغانستان کے بارے میں یک طرفہ تبصروں اور افواہیں پھیلانے کیلئے مغربی ذرائع ابلاغ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں جن کے نمائندے اور جنہیں ہر دن ’تازہ ترین اشاعتی و نشریاتی مواد‘ دینے کے مراکز بھارت میں قائم ہیں۔ پاکستان میں اَمریکہ کا مرکزی سفارتخانہ (ایمبسی) اسلام آباد میں ہے جبکہ تین شہروں (پشاور‘ لاہور اور کراچی) میں ذیلی دفاتر (قونصل خانے) قائم ہیں۔ اسلام آباد میں امریکہ کے مرکزی سفارتخانے کی ازسرنو تعمیر 2015ء میں 73 کروڑ 60 لاکھ (736 ملین) روپے کی لاگت سے مکمل کی گئی تھی۔ پاکستان میں پہلا امریکی سفارتخانہ (15 اگست 1947ء) کراچی میں قائم کیا گیا تھا‘ جو 1960ء میں نیا وفاقی دارالحکومت بنانے کے بعد اسلام آباد منتقل ہوا اور اِس کی 1979ء میں توسیع کی گئی تھی لیکن 2015ء میں (افغانستان سے انخلأ کے چھ برس قبل) امریکہ نے بھانپ لیا تھا کہ اُس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام آباد میں وسیع و عریض رقبے اور زیادہ افرادی گنجائش کیلئے سفارتخانہ تعمیر کیا گیا‘ جو درست فیصلہ ثابت ہوا ہے اور عراق کے بعد اسلام آباد دنیا میں امریکہ کا رقبے کے لحاظ سے دوسرا بڑا جبکہ جدید سہولیات کے لحاظ سے سرفہرست سفارتخانہ ہے‘ جس میں ڈھائی ہزار افراد کے کام کاج اور رہائش کی سہولیات موجود ہیں۔ لائق توجہ پیشرفت یہ بھی ہے کہ پشاور میں تعینات اَمریکی سفارتی نگران (قونصل جنرل) کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ نئے قونصل جنرل نے چودہ ستمبر سے کام شروع کر دیا ہے۔ رچرڈ ایچ ریلے (Richard H. Riley) اِس سے قبل کابل (افغانستان)‘ یمن‘ عراق‘ اٹلی اور کینیڈا میں تعینات رہ چکے ہیں۔ آپ مادری زبان انگریزی کے علاؤہ پشتو‘ چینی‘ عربی‘ روسی اور فرانسیسی زبانوں کے علوم سے آگاہ ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ خواندگی صرف غیرملکی زبانوں کے الفاظ اور لہجہ ازبر کرنے سے متعلق نہیں بلکہ آپ کا شمار وسیع المطالعہ سفارتکاروں میں ہوتا ہے‘ جن کا دوستانہ رویہ‘ امریکی مفادات کیلئے سمجھ بوجھ اور سیاسی و سماجی اثرورسوخ عمومی سفارتکاری کی سطح سے ایک درجہ بلند بتایا جاتا ہے۔ پشاور میں تازہ دم اور جہاندیدہ (تجربہ کار) سفارتکار کی تعیناتی انتہائی غیرمعمولی اقدام ہے‘۔سردست امریکی سفارتکاری کے تین بنیادی پہلو ہیں‘ جن میں سے 2 کا براہ راست تعلق پاکستان کے دفاعی امور اور سی پیک حکمت عملی سے ہے جبکہ ایک کا تعلق افغانستان کے کسی ایسے سیاسی حل سے ہے جس میں امریکہ کو اِس بات کی ضمانت چاہئے کہ خطے میں اُس کے مفادات کے افغان حکومت یا سرزمین (وسائل) استعمال نہیں ہو گی۔  اس عمل میں سفارتکاری کے ساتھ خبرنگار دستے بھی مذکورہ تینوں پہلوؤں کا بیک وقت احاطہ کئے ہوئے ہیں اور اِن سے متعلق ہر ایک کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں‘ جو بہ احسن پوری ہو رہی ہیں۔ ہر ملک اپنے سفارتی عملے سے متعلق فیصلوں میں بااختیار ہوتا ہے اور وہ اِس مقصد کیلئے موزوں ترین شخصیات کا انتخاب کرتا ہے تاکہ ایک کے بعد دوسرا اور اہداف کے حصول کا متواتر سلسلہ جاری رہے۔۔ زمینی حقائق (منظرنامہ) پر مبنی حقائق کا یہ بیان ہو گا کہ ”امریکہ کا ’افغان مشن‘ ختم نہیں ہوا۔ امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک افغانستان کی سرزمین اور وسائل کے کسی دوسرے ملک کے خلاف ممکنہ استعمال پر بنا ثبوت و جواز تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ خود دوسرے ممالک کی سرزمین اور اُن کے وسائل اپنے مفادات کیلئے جس خودغرضی پر مبنی انداز سے کرتے ہیں اس سے دنیا واقف ہے۔ اس وقت امریکہ پاکستان کے ساتھ جس قسم کے تعلقات رکھنے کی کوشش میں ہے اس میں پاکستان کا سراسر نقصان ہے اور فائدہ محض امریکہ کو ہوگا کیونکہ افغانستان سے نکلنے کے بعد وہ نہیں چاہتا کہ یہاں پر موجود ممالک افغانستان میں امن سے استفادہ کر سکیں اس لئے امریکہ اور اس کے حامی ممالک چاہتے ہیں کہ وہ چین اور پاکستان دونوں کو امن و خوشحالی سے نہ رہنے دیں جہاں تک چین کا معاملہ ہے حال ہی میں امریکہ نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر نیا فوجی اتحاد بنایا ہے جس کا مقصد چین کو مشکلات سے دوچار کرنا اور اس کی طاقت کو زک پہنچانا ہے دوسری طرف اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے جو چین کے ساتھ کئی حوالوں سے اہم منصوبوں میں شریک ہے۔