صدر مملکت نے پاکستان فوڈ سکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آ رڈیننس جاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت بلا جواز مہنگائی،ذخیرہ اندوزی اور اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرنے والوں کو 6ماہ قید، پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔آرڈیننس کے تحت مہنگائی پر کنٹرول کے فوری فیصلے لینے اور ان پر عمل درآمد کیلئے وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ،آزادجموں و کشمیرکے وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کمیٹی کے رکن ہوں گے۔وزیر اعظم فوری اور اہم فیصلے خود لیکر ان پر عمل درآمد کیلئے انہیں صوبوں کو ارسال کر سکیں گے۔کمیٹی ملک کی پہلی نیشنل فوڈ سکیورٹی پالیسی بنائے گی اور اس پر عمل درآمد کیلئے نیشنل ایگزیکٹیوکمیٹی بنائے گی، ایگزیکٹیو کمیٹی وفاقی، صوبائی، ضلعی، تحصیل اور دیگر سطح پر اجناس کی دستیابی، ان کی قیمتوں اور ان کی سپلائی کی یومیہ بنیاد پر معلومات سیکرٹری کمیٹی کو ارسال کرنے کی پابند ہو گی۔وفاقی سطح پر اجناس اور ان کی قیمتوں کاسینٹرل ڈیش بورڈ اور پراونشل ڈیش بورڈ ترتیب دیا جائے گا کمیٹی ملک میں اجناس کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیادوں پر ردوبدل، ملک میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس کی امدادی قیمت، ان کی عبوری امدادی قیمت یا ان کی مداخلتی قیمت کا تعین کرے گی، کمیٹی سرکاری سطح پر اجناس کی خریداری کر کے ان کے ذخائر بنانے اور انہیں بوقت ضرورت ملک میں سپلائی کے فیصلے کرے گی۔ نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی وفاق، صوبوں اور دیگر اداروں سے براہ راست معلومات حاصل کرنے میں با اختیار ہو گی کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے والے صوبائی افسران کے خلاف چیف سیکرٹری کاروائی کیلئے با اختیار ہوں گے۔نیشنل فوڈ سیکورٹی کمیٹی کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کوبھی آئے روز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشانی لاحق ہے۔ حکومت خلوص نیت سے مہنگائی کا بوجھ کم کرنا بھی چاہتی ہے مگر یہ چھلاوا ہاتھ ہی نہیں آتا۔ صدر نے جو آرڈیننس جاری کیا ہے اس کا مقصد یہ بتایاگیاہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر عوام کو تنگ کرنے کیلئے چیزین مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرتے ہیں، چیزیں مہنگی بیچنے کیلئے انہیں ذخیرہ کرلیتے ہیں اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے بعد انہیں منہ مانگے داموں بیچتے ہیں۔ نقلی چیزیں بناکر مارکیٹ میں پھیلاتے ہیں‘ ملاوٹ کرتے ہیں صرف انہی کے خلاف کاروائی ہوگی۔ہم نے تو اب تک یہی سنا ہے کہ جو لوگ گرانفروشی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اورجعل سازی کرتے ہیں وہ دانستہ طور پر اور جانتے بوجھتے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہی یہ کام کرتے ہیں۔ تاہم مہنگائی پر قابو پانے کیلئے حکومت نے جو کمیٹیاں قائم کی ہیں وہی قائم رہیں تو کچھ امید بر آنے کی توقع کی جاسکتی ہے اگر مزید کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنائی گئیں تو بات بننے کے بجائے بگڑنے کا زیادہ احتمال ہے۔