موبائل فون ٹاور: مرض اور علاج

شہری ہو یا دیہی زندگی ”موبائل فونز“ نے جس تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اور جس طرح اِن کا استعمال روزمرہ معمولات کا حصہ بن گیا ہے‘ انسانی تاریخ میں دوسری کوئی بھی ایجاد اتنی تیزی سے عام نہیں ہوئی۔ پاکستان کی کل آبادی (اکیس کروڑ) جبکہ موبائل فون کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں نے سولہ کروڑ فون کنکشنز فروخت کر رکھے ہیں جن میں گیارہ کروڑ فعال اور چھ سے آٹھ کروڑ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں موبائل فون کا استعمال صرف کاروباری اور تجارتی طبقات تک محدود تھا لیکن اب تعلیم سے رابطہ کاری اور دفتری کام کاج موبائل کے محتاج ہیں۔ موبائل کیمونیکشن میں قانون نافذ کرنے والوں اور دیگر حکومتی اداروں کے درمیان رابطہ کاری کیلئے ’واکی ٹاکیز‘ استعمال ہوتے تھے‘ جن کی محدود پہنچ کی وجہ سے اُن کے ماحول پر منفی اثرات بھی کم تھے لیکن پھر ’ایف ایم‘ کی جگہ الٹرا ہائی فریکونسی (UHF) نے لے لی اور محفوظ (رازدارانہ) رابطہ کاری کیلئے ’گلوبل سسٹم فار موبائل کیمونیکیشن (GSM)‘ متعارف ہوا‘ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے ’جی ایس ایم‘ فریکونسی بینڈ سے جڑے موبائل فون کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی جیبوں میں بھی سما گئے ہیں۔ یوں موبائل فون گھر گھر کی کہانی بنتی چلی گئی جن سے پیدا ہونے والے جرائم اور اخلاقی قدروں کا زوال اپنی جگہ لیکن اِس سے پیدا ہونے والی آسانیاں‘ بیماریاں اور عارضے بھی یکساں توجہ طلب ہیں یعنی اِس بظاہر لاعلاج مرض کا علاج ممکن ہے لیکن اگر اِس کے خطرات و نقصانات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔امریکن کینسر سوسائٹی (cancer.org) نامی تنظیم کی مرتب کردہ رپورٹ میں موبائل فون کھمبوں (ٹاورز) کے ذریعے پھیلنے والی تابکاری کو موضوع بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ”موبائل فون رابطہ کاری کیلئے جس ذریعے کا استعمال کیا جاتا ہے وہ RF شعاعیں ہیں اور یہ ’آر ایف شعاعیں‘ ایف ایم ریڈیو اور مائیکرو ویو کی درمیانی شکل ہیں۔ جس طرح ’ایف ایم‘ نامی ریڈیو شعاعیں‘ مائیکرو ویوز‘ نظر آنے والی عمومی روشنی اور گرمائش (حرارت) شعاؤں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوتی ہیں اور انہیں ’ذرات کے بغیر (Non Ionizing)‘ تابکاری (radition) کہا جاتا ہے۔ موبائل فون سگنلز کو طاقتور بنانے اور پھیلانے کیلئے جن آلات کا استعمال کیا جاتا ہے اُنہیں زیادہ مؤثر بنانے کیلئے بلندی سے اور اِس مقصد کیلئے کھمبے (ٹاورز) استعمال کئے جاتے ہیں جن پر مذکورہ ’آر ایف‘ شعاعیں پھیلانے والے آلات نصب ہوتے ہیں۔ اِن شعاعوں کو وسیع علاقے تک پھیلانے کیلئے زیادہ برقی طاقت کا استعمال اور اِس سے پیدا ہونے والی تابکاری جاندار اجسام کے خلیوں کو بالکل اُسی انداز میں گرم کرتی ہیں جیسا کہ مائیکرو ویو اوون میں رکھا کھانا چند سیکنڈ میں تپ جاتا ہے اور مائیکرو ویوز دکھائی بھی نہیں دے رہی ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ موبائل فون ٹاورز سے پیدا ہونے والی اور نظر نہ آنے والی تابکاری اگر کسی جاندار کے جسم پر مسلسل برستی رہے تو اِس کی وجہ سے اُس کے جسم (جو کہ خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے) میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ سرطان (کینسر) ایسے ہی مرض کا نام ہے جو انسانی جسم کے کسی ایک یا چند خلیوں کو ضرورت سے زیادہ متحرک کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اِسی طرح سیوک ویب (CivicWeb.net) نامی ادارے نے تحقیق سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ موبائل فون ٹاور (کھمبے) جو کہ خاص قسم کی تابکاری منتشر کرتے ہیں سے انسانوں کا محفوظ فاصلہ کتنا ہونا چاہئے؟ معلوم ہوا ہے کہ کسی موبائل فون کھمبے (ٹاور) سے محفوظ فاصلہ 300 سے 400 میٹر ہونا چاہئے۔ اِس تحقیق کے ایک حصے میں موبائل فون ٹاورز سے خارج ہونے والی تابکاری کے کم سن بچوں پر منفی اثرات کے بارے میں بھی بحث کی گئی ہے اور اِس ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ بچوں کو موبائل فون ٹاورز سے دور رکھا جائے۔ مذکورہ دونوں تحقیقات میں طبی پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا اور متعلقہ شعبوں کے طبی ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ایونائزنگ (ionizing) اور نان ایونائزنگ (non-ionizing)قسم  نامی تابکاری کی دونوں اقسام یکساں خطرناک ہیں بالخصوص ایسی صورتوں میں جبکہ یہ جاندار اجسام پر مسلسل پڑتی رہیں‘پشاور کے ایک سائل نے عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا ہے کہ عوامی (سرکاری) سبزہ زار (پبلک پارک) میں موبائل فون ٹاور کی تنصیب روکی جائے۔ اِس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس سیّد عتیق شاہ اور جسٹس سیّد ارشد علی نے نہ صرف ٹاور نصب کرنے والی متعلقہ موبائل فون کمپنی  بلکہ پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن اتھارٹی‘ صوبائی تحفظ ِماحول کے ادارے اور کنٹونمنٹ بورڈ پشاور کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو طلب کیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کے روبرو پیش ہوکر اِس بارے میں اپنا اپنا مؤقف پیش کریں۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ ”اُس کے رہائشگاہ کے قریب پارک‘ میں موبائل فون ٹاور نصب کیا جا رہا ہے جس سے خارج ہونے والی تابکار شعاؤں سے اہل علاقہ سمیت اُسے اور اِس کے اہل خانہ کو خطرہ ہے۔“یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی موبائل فون ٹاور سے انسانی زندگی کیلئے خطرے سے متعلق یہ پہلا معاملہ نہیں جس سے متعلق عدالت ِعالیہ سے رجوع کیا گیا ہے بلکہ اِس سے  قبل بھی ایک درخواست گزار اِسی قسم کے ایک معاملے میں عدالت سے رجوع  کرچکا ہے۔