رواں ماہ کی گیارہ تاریخ کو امریکہ کے شہر نیویارک میں ہونے والے اس مبینہ واقعہ کو بیس سال مکمل ہوچکے ہیں جس کوبنیاد بناکرامریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی گیارہ ستمبر 2001ء کو دہشت گردوں نے امریکی امارت کی علامت نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمین بوس کردیا اور واشنگٹن میں واقع امریکہ کی فوجی طاقت کی علامت پنٹاگون کو بھی نشانہ بنایا۔ امریکہ کی سر زمین پر ہوئے تاریخ کے ان بدترین دہشت گردانہ حملوں نے نہ صرف سپر پاوربلکہ سارے عالم کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان میں مرنے والے امریکی شہریوں کی تعداد تین ہزار تھی لیکن غصے اور انتقام کے جذبات سے مغلوب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر قتل و غارت گری اور تباہی کا جو سلسلہ شروع کیااس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں جن میں عام شہریوں کی تعداد چار لاکھ ہے اور بے گھرہونے والے لوگوں کی تعداد چار کروڑ بیان کی جاتی ہے یہ اعداد و شمارامریکہ کی معروف براؤن یونیورسٹی کے فراہم کردہ ہیں۔ امریکہ اس لاحاصل جنگ پر آٹھ کھرب (ٹریلین)ڈالر خرچ کرچکا ہے۔جس وقت القاعدہ کے انیس دہشت گردوں نے امریکہ پر یہ حملے کئے اس وقت واشنگٹن میں ایک تنگ نظر اور انتہاپسندانہ سیاسی نظریئے کا حامل ٹولہ اقتدار میں تھا جس کی سربراہی بش جونئیر کررہے تھے۔سوویت یونین کے انتشار کے بعد بش کو نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذکیلئے ایک نئے عالمی دشمن کی ضرورت تھی۔ نائن الیون کے بعد انہوں نے اسلامی دہشت گردی کو سب سے بڑا عالمی خطرہ بنا کر پیش کیا اور دنیابھر میں دادا گیری کرنے کا لائسنس حاصل کرلیا۔ بارہ ستمبر کو بش نے دنیا کو یہ وارننگ دی کہ”ہر ملک کو آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ہمارے ساتھ ہے یا دہشت گردوں کے۔“ بش نے دعویٰ کیا تھا کہ اس جنگ میں کافی وقت لگے لیکن جیت امریکہ کی ہوگی۔ان کے وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ بیس سال گزر جائیں گے اور امریکہ پھر بھی یہ جنگ نہیں جیت پائے گا۔نائن الیون میں مبینہ طورپر ملوث انیس دہشت گردوں میں سے ایک بھی افغان نہیں تھا لیکن اس کے باوجود افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی کیونکہ القاعدہ کے سربراہ اوسامہ بن لادن نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔ امریکی اور نیٹو فوجی کاروائی کے نتیجے میں تین ماہ کے اندر القاعدہ کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور طالبان کو پسپا اور اُسامہ کو روپوش ہونا پڑا۔ امریکہ اگر چاہتا تو ان مقاصد کی حصولیابی کے بعد2002ء میں ہی افغانستان سے فوج واپس بلالیتا لیکن بش ٹولے کی عراق کی تباہی کی دلی تمنا ابھی پوری نہیں ہوئی تھی۔ عراق کا نائن الیون سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اس کے باوجود 2003ء میں عراق پر یہ جعلی الزام لگاکر چڑھائی کردی گئی کہ صدام حسین کے پاس اجتماعی تباہی والے ہتھیار ہیں۔ باپ (جارج بش)نے نوے کے اوائل میں عراق کو تباہ کیا اور رہی سہی کسر بیس سال بعد بیٹے(بش جونیئر) نے پوری کردی۔ امریکہ نے وار آن ٹیرر کے بہانے افغانستان، عراق، لیبیا، شام، صومالیہ، یمن،لبنان، پاکستان اور نہ جانے کن کن ملکوں میں کتنے بے گناہوں کا قتل عام کیا۔اگر امریکہ نے واقعی دہشت گردی مٹانے اور جمہوریت اور آزادی کا پرچم لہرانے کے نیک ارادے سے افغانستان میں فوج کشی کی ہوتی تو اسے بیس سال بعد اقتدار طشت میں سجاکر طالبان کے ہاتھوں میں سونپ کر اورمنہ چھپاکر بھاگنا نہیں پڑتا۔ بش نے کہا تھا کہ وار آن ٹیرر کا آغاز القاعدہ سے ہوا ہے لیکن یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک دنیا کی تمام دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ہے۔سچائی یہ ہے کہ جنگ سے نہیں انصاف، اخلاق اور انسانیت سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔صرف امریکہ ہی نہیں دہشت گرد تنظیمیں بھی یہ جنگ ہار چکی ہیں امریکہ نے بیس برسوں میں دہشت گردی مخالف جنگ کی آڑ میں متعددمسلم ممالک کو تباہ کردیا۔ دہشت گردانہ وارداتوں کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں اسلامو فوبیا میں اضافہ ہوا شکر ہے ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کو یہ ادراک ہوگیا کہ فوجی آپریشن دہشت گردی کا حل نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردی کو جنگ کے ذریعہ مات دی جاسکتی ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے تھی لیکن ذمہ دار تنظیم کے چند سو افراد کو سزا دینے کے بجائے لاکھوں بے گناہوں کی زندگیاں اجاڑدینا کہاں کا انصاف تھا؟دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے جنگ کے تمام اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیں، ظلم و استبداد کی تمام حدیں پار کر دیں،ہولناک جنگی جرائم کا ارتکاب کیا،گوانتا ناموبے کے عقوبت خانوں میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو غیر معینہ مدت تک قید میں رکھ کر ٹارچر کیاا لغرض یہ کہ تمام قانونی اور اخلاقی اقدار کو پامال کیا دنیا بھر میں خون کی ندیاں بہا دینے کے باوجود امریکہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ اور بائیڈن نے افغانستان کی کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ بند اور امریکی فوج واپس بلا کراچھا کیا۔ اب بائیڈن کو چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف بیس بر س سے جاری لاحاصل جنگ کے خاتمے کا بھی اعلان کردیں۔