پشاور کی ضلعی اِنتظامیہ اور خیبرپختونخوا کے محکمہئ برائے تحفظ ِماحولیات نے ’صنعتی بستی حیات آباد‘ میں مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے 3 فیکٹریوں سے اُگلنے والے دھویں کو خطرناک قرار دے کر اُنہیں سربمہر کیا ہے۔ اِس بارے میں جاری ہوئے مختصر اعلامیے میں متعلقہ فیکٹری مالکان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے جیسے عزم کا اظہار بھی تحریر ہے‘ جس پر یقین کرنے کے سوا چارہ نہیں اور خوش گمانی کتنی ہی پُرفریب کیوں نہ ہو لیکن اِس کی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے! سرکاری ادارے بہت ہی کم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کاروائیاں کرتے ہیں اور ایسی کسی خبر سے کوئی خیر کا پہلو نکلے یا نہ نکلے لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ ایک دوسرے سے مربوط نہ سہی قریب ہو گئے ہیں اور بات ختم نہیں بلکہ یہاں سے شروع ہو گی۔ صنعتی بستی میں مذکورہ کاروائی کے چند ضمنی پہلو لائق توجہ ہیں‘ جن کا اشارتاً تذکرہ کرنے کا مقصد فیصلہ سازوں کی مبذول توجہات سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ مذکورہ خبر کا پہلا ضمنی پہلو یہ ہے کہ صنعتوں سے دھویں کی صورت اخراج ہونے والی آلودگی پشاور کی فضا کیلئے ’واحد خطرہ‘ نہیں بلکہ یہاں کی اکثر صنعتیں موحولیاتی تنوع میں بگاڑ کا باعث ہیں اور یہ ماحول کے تحفظ سے متعلق قواعد و ضوابط کو بری طرح پائمال کر رہی ہیں۔ دوسرا لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ حیات آباد پشاور کی صنعتی بستی خیبرپختونخوا کی کسی بھی دوسری صنعتی بستی سے مختلف نہیں جن کیلئے حکومت خصوصی مراعات کا اعلان اِس لئے کرتی ہے کہ اِس سے لوگوں کو روزگار ملے گا‘ پاکستان کی مقامی اور برآمدی ضروریات پوری ہوں گی‘ زیادہ محصولات (ٹیکس) اکٹھا ہوں گے اور خام مال کی کھپت کے باعث معیشت کا پہیہ چلنے کی وجہ سے خوشحالی آئے گی لیکن نتائج کچھ اور ہی سامنے آتے ہیں۔ عمومی منظرنامہ یہ ہے کہ چند ایک اداروں کے علاوہ جتنی بھی بڑی صنعتیں ہیں یعنی جن کے ’پیداواری صلاحیت‘ جس قدر زیادہ ہے‘ وہ اتنی ہی زیادہ حکومتی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی ہیں اور ایسی صنعتیں بھی ہمارے ہاں ہی پائی گئیں جو بجلی و گیس چوری میں ملوث تھیں۔پیش نظر رہے کہ افغانستان کے سیاسی حالات میں تبدیلی سے پشاور کی صنعتی بستی اور براستہ پشاور طورخم نقل و حمل میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ اعلان ہونے کے بعد اور چین کی جانب سے ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کو براستہ افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں تک وسعت دینے میں گرمجوش سرمایہ کاری کی وجہ سے پشاور کی صنعتی بستیوں کی اہمیت بڑھنے کا اندازہ جائیداد کی قیمتوں اور کرایوں میں ہزاروں گنا اضافے سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن صنعتی بستیوں سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی شرح وہی کی وہی ہے! بنیادی بات یہ ہے کہ صنعتی بستیوں میں سرمایہ کاری کے امکانات اور رجحان موجود ہے لیکن اِن کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور حسب طلب قطعات ِاراضی (پلاٹس) دستیاب نہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت نئی صنعتی بستیاں تو بناتی ہے لیکن پہلے سے موجود صنعتی بستیوں کی وسعت اور بالخصوص حیات آباد کی صنعتی بستی کو ’تختہ بیگ‘ تک بڑھا کر صوبے کا سب سے بڑا ’صنعتی علاقہ (اکنامک زون)‘ نہیں بناتی جس کا ایک فائدہ افغانستان اور وسط ایشیا سے تجارت کی صورت اُٹھایا جا سکتا ہے اور پشاور گوادر سے بھی زیادہ دور نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ مکران کوسٹل ہائی وے (قومی شاہراہ N-10)کا استعمال کرتے ہوئے اگر گوادر سے حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ سفر کیا جائے تو یہ چوبیس گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ پچیس گھنٹے کی مسافت بنتی ہے جو قریب 2 ہزار 200 کلومیٹر فاصلہ ہے۔ اگر پشاور سے (قومی شاہراہ N-50 کا استعمال کرتے ہوئے) ڈیرہ اسماعیل خان سے گوادر جایا جائے تو یہ فاصلہ دوہزارکلومیٹر سے کم (1970 کلومیٹرز) بنتا ہے جبکہ حیات آباد صنعتی بستی سے طورخم کا فاصلہ براستہ قومی شاہراہ AH-1 قریب پینتالیس کلومیٹر ہے۔ وقت ہے کہ پشاور کی خشک گودی اور ریلوے کو وسعت دیتے ہوئے لنڈی کوتل تک پٹڑی کو بحال کیا جائے‘ جس کیلئے راہداری پہلے ہی سے موجود ہے جبکہ لنڈی کوتل سے طورخم تک ریلوے لائن بچھانے سے اشیا کی غیرقانونی نقل و حمل کے دھندے کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور طورخم کے راستے ہونے والی تجارتی آمدورفت اور اِس کا مالیاتی حجم الگ سے بڑھے گا جو فی الوقت غیرقانونی ذرائع اور گوداموں کے ذریعے ہو رہی ہے اور اِس سے پاکستان کی معیشت کو ٹیکس چوری اور ٹرانزٹ ٹریڈ مال کی فروخت کے باعث نقصان پہنچ رہا ہے۔