افغان قومی حکومت کے قیام کا فارمولہ

طالبان نے کابل میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد امور مملکت چلانے کیلئے 40 نکات پر مشتمل نیا آئینی ڈھانچہ تشکیل دے دیا ہے آئینی ڈھانچے کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا جبکہ دیگر مذاہب کے پیروکار اسلامی شریعت کے تحت اپنے عقائد کی انجام دہی میں آزاد ہونگے‘مملکت کا نام امارات اسلامیہ افغانستان اور قومی پرچم سفید رنگ کا ہوگا جس پر کلمہ طیبہ تحریر ہوگا اور ملک کی سرکاری زبانیں پشتو اور دری ہوں گی۔خارجہ پالیسی اسلامی شریعت کے تابع ہوگی‘آئینی ڈھانچے میں واضح کیا گیا کہ افغان سرزمین کا کوئی بھی حصہ بیرونی حکومتوں کے تابع نہیں ہو گا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور انصاف یکساں طور پر حاصل ہوں گے۔دوسری طرف افغانستان میں ایک وسیع البنیاد قومی حکومت کیلئے پاکستان، چین، روس او ر ایران نے کوششیں تیز کردی ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کرنے والی جامع حکومت کے قیام کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ 'دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کیلئے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ طویل خانہ جنگی کے بعد مختلف افغان دھڑوں کی حکومت میں شمولیت سے پرامن اور مستحکم افغانستان کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ طالبان کو عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پاس رکھنا چاہئے۔ جس میں تمام نسلی گروپوں کو حکومت میں نمائندگی دینے کی بات کی گئی تھی۔ خواتین اورمذہبی اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کا عہد کیاگیا تھا۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھاکہ بین الاقوامی برادری کو اجتماعی مفاد میں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم رہے۔طالبان حکومت میں شامل بعض سنجیدہ رہنما بھی قومی حکومت کے قیام اور دوحہ معاہدے پر عمل درآمد پر زور دے رہے ہیں جبکہ بعض سخت گیر رہنما پالیسیوں میں لچک پیدا کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ موجودہ گلوبل ویلج میں کوئی بھی ملک دیگر ممالک کے ساتھ سیاسی، سفارتی، تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات قائم کئے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا‘ طویل خانہ جنگی سے ہلکان افغانستان جیسے لینڈ لاک ملک کیلئے دیگر ملکوں کے ساتھ مفاہمانہ اور دوستانہ تعلقات کا قیام ناگزیر ہے۔ افغانستان کی تعمیر نو کیلئے اربوں ڈالر امداد کی ضرورت ہے۔ اور امداد دینے والے اپنی شرائط پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں طالبان کی حکومت اپنی شرائط پر اقوام عالم سے مدد اور تعاون حاصل نہیں کرسکتی۔امریکہ کو افغانستان سے جانے پر مجبور کرنے کا سہرا بجا طور پر طالبان کے سر ہے تاہم افغانستان کے کئی چھوٹے گروپ بیرونی تسلط کے خلاف اپنے طور پر برسر پیکار تھے۔ ہزارہ، تاجک اور ازبک قبیلے افغان قوم کے حصے ہیں انہیں بھی حکومت سمیت ہر شعبے میں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی ملنی چاہئے۔تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔