سالانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ (دوہزاراُنیس بیس) میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق (سال دوہزاربیس کے اختتام تک) پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداوار 37 ہزار 402 میگاواٹ رہی جبکہ گھریلو اور صنعتی صارفین کی مجموعی طلب قریب 25 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کر رہے ہیں لیکن بجلی کا ترسیلی نظام زیادہ سے زیادہ 22 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ یوں پاکستان میں بجلی کی کمی نہیں بلکہ پیداوار اور پیداواری صلاحیت مانگ سے زیادہ ہے لیکن بجلی کا ترسیلی نظام گھریلو اور صنعتی صارفین کی ضروریات پوری کرنے صلاحیت نہیں رکھتا اور اِس نظام کو وسعت دینے (ترقیاتی عمل) کیلئے خاطرخواہ مالی وسائل دستیاب نہیں ہیں کیونکہ بجلی کی ایک بڑی مقدار چوری ہو رہی ہے۔ بجلی صارفین کی ایک تعداد واجب الادأ بل بروقت ادا نہیں کرتے اور چوری ہونے کے علاؤہ ترسیلی نظام میں ضائع ہونے والی بجلی ایک ایسے خسارے کا باعث ہے جسے ”گردشی قرض“ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گھنٹے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں بجلی کی فراہمی تعطل کا شکار رہتی ہے‘ جو بجلی کے عام صارفین کی سمجھ سے بالاتر عمل ہے۔ ترسیلی نظام کی خاطرخواہ گنجائش نہ ہونے کے علاوہ بھی بجلی کی فراہمی معطل رہنے کی 2 دیگر تکنیکی وجوہات ہیں جن میں برقی رو کی فراہمی کے نظام کو وقتاً فوقتاً مرمت یا توسیع کی ضرورت پڑتی ہے اور اِس مقصد کے لئے کسی علاقے میں بجلی کی فراہمی (مجبوراً) معطل رکھنا پڑتی ہے لیکن برقی رو کی اِس معطلی کو کم سے کم رکھنے کیلئے خصوصی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ بالخصوص شہری علاقوں میں معمولات زندگی متاثر نہ ہوں اور یہ تعطل دن کے اُن گھنٹوں میں بھی کم رکھا جاتا ہے جنہیں ’دفتری اوقات‘ کہا جاتا ہے اور یہ پیر سے جمعہ صبح نو سے شام چار بجے کے درمیان مقرر ہیں۔ اِنہی اوقات میں تعلیمی ادارے اور خدمات فراہم کرنے والے نجی کاروباری معمولات کے متاثر ہونے کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ بجلی کے تعطل کی دوسری تکنیکی وجہ موسمی اثرات‘ گرج چمک‘ تیز بارش‘ درخت گرنے وغیرہ جیسے حادثات رونما ہوتے ہیں اور اِن کی وجہ سے بھی کسی علاقے میں برقی رو معطل کی جاتی ہے اور ایسا کرنے کیلئے پیشگی اطلاع جاری نہیں کی جاتی لیکن کئی ایسی قسم کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جس کی پیشگی اطلاع جاری کی جا سکتی ہے لیکن ایسا خاطرخواہ وسیع پیمانے پر نہیں کیا جاتا یا متعلقہ علاقے کے صارفین کو مطلع کرنے کا بندوبست نہیں ہوتا۔ پیسکو حکام تمام بجلی صارفین سے متعلق تصور رکھتے ہیں کہ وہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے موبائل فونز اور سوشل میڈیا وسائل کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا‘ کسی فیڈر یا سب ڈویژن کے صارفین کو بذریعہ ’شارٹ میسجنگ سروس (SMS)‘ مطلع کرنے کا نظام موجود نہیں تاکہ صارفین کو علم ہو سکے کہ برقی رو کے تعطل کی وجہ کیا ہے اور اِس کی بحالی کتنی دیر میں ممکن ہو جائے گی۔بنیادی بات بجلی صارفین کے حقوق کی ہے۔ااتفاقیہ اور حادثاتی وجوہات کے علاؤہ جب کبھی طویل دورانئے کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑتی ہے تو اُس کے لئے کم سے کم ایک دن پہلے پیشگی اطلاع (اعلامیہ) جاری کیا جاتا ہے جسے اخبارات بھی شائع کرتے ہیں لیکن اِس معمول پر صرف پشاور جیسے مرکزی شہر میں باقاعدگی سے عمل درآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایبٹ آباد میں گزشتہ کئی دنوں سے مختلف فیڈرز پر بجلی کی طویل (یومیہ آٹھ سے دس گھنٹے) لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے‘ جس کی وجہ ترسیلی نظام کی خرابی یا اِس میں وسعت بھی نہیں لیکن اِس بارے میں متعلقہ صارفین کو مطلع کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا جس سے ایک غیریقینی اور پریشانی کی صورتحال عام ہے۔ ہزارہ ڈویژن کے سبھی چھوٹے بڑے شہر بشمول ایبٹ آباد کے صارفین اپنے مقررہ کوٹے سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں اور یہاں بجلی کے بل ادا کرنے کی شرح بھی خیبرپختونخوا کے دیگر ڈویژنز یا اضلاع سے زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں ایبٹ آباد (ہزارہ ڈویژن) کے برقی صارفین سے انصاف کرتے ہوئے بجلی کے مختصر اور طویل دورانئے کے تعطل قابل برداشت بنانے اور اِس بارے متعلقہ صارفین کو لازماً پیشگی مطلع کرنا ضروری ہے۔