پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کیلئے ”ٹک ٹاک“ نامی سوشل میڈیا ایپ تک رسائی ایک مرتبہ پھر معطل ہے۔ 20 جولائی 2021ء سے لاگو اِس حکومتی فیصلے کے خلاف شہریوں نے ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ اور ’پشاور ہائی کورٹ‘ میں رجوع کر رکھا ہے جہاں یکے بعد دیگرے کئی سماعتوں کے بعد بھی واضح نہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا۔
اُنتیس اگست دوہزار اکیس: اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ایک مقدمے میں متعلقہ حکام پیش ہوئے اور اُنہوں نے سماجی رابطہ کاری (سوشل میڈیا) کی معروف ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے دلائل پیش کئے تاہم عدالت کی جانب سے دلائل سننے کے بعد اُن پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اِس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ”صرف ایک فیصد صارفین ٹک ٹاک سے غلط استفادہ کرتے ہیں جس کی سزا باقی ماندہ 99 فیصد صارفین کو دینا مبنی برانصاف نہیں ہے۔“ مقدمے کی سماعت بیس ستمبر تک ملتوی کرنے سے پہلے چیف جسٹس نے کہا ”کہ معاشرے میں خرابی کے لئے سوشل میڈیا کو تن تنہا قصوروار قرار دینا درست نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو سوشل میڈیا کے باعث اخلاقی بے راہ روی کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو بھی پابندی کے علاوہ حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔
بیس ستمبر دوہزاراکیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے ’ٹک ٹاک‘ پر عائد پابندی سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے حکام سے پوچھا کہ وہ ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں اور اخلاقی قدروں سے متصادم مواد کو تکنیکی طور پر روکنے کی بجائے پورے ٹک ٹاک پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے؟ کیا سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومت نے کوئی حکمت عملی (پالیسی وضع) کی ہے؟ اگر کی ہے تو اِسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کک باکسنگ فیڈریشن کے سینئر نائب صدر اسحاق جٹ نے اپنی مؤکلہ مریم فرید خواجہ ایڈوکیٹ کے ذریعے آئین ِپاکستان کی شق 199 کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ الیکٹرانک کرائمز کے انسداد سے متعلق 2016ء کے قانون‘ پاکستان ٹیلی کیمونیکیشن ایکٹ 1996ء اور آئین ِپاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے تحت ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی غیرآئینی ہے۔
بائیس ستمبر دوہزار اکیس: عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے روبرو متعلقہ حکام نے ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ”جب تک ٹاک ٹاک سے متنازعہ (غیر قانونی و غیراخلاقی) مواد ہٹا نہیں دیا جاتا‘ اور جب تک ٹاک ٹاک انتظامیہ ایسے (محزب الاخلاق) مواد کو ازخود روکنے کا تکنیکی لائحہ عمل (شرائط اور قواعد و ضوابط پر نظرثانی) متعارف نہیں کراتی‘ اُس وقت تک پاکستان میں ٹک ٹاک تک رسائی پر پابندی برقرار رہے گی۔“ جمع کروائی گئی دستاویز میں ’پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ء‘ اور آن لائن مواد کے اخلاقی و قانونی پہلوؤں سے متعلق قواعد و ضوابط جو کہ سال 2020ء میں متعارف کروائے گئے تھے کا حوالہ دیتے ہوئے ’ٹک ٹاک‘ انتظامیہ کو غیراخلاقی مواد ہٹانے کیلئے ٹھوس اقدامات لینے کا کہا گیا ہے۔ پشاور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹس میں زیرسماعت مقدمات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور نہ ہی ایسی صورت میں پہنچ سکتے ہیں جب پاکستان میں بنائے گئے قوانین و قواعد کی جامعیت سے متعلق یہ تصور خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ بلاقیمت سوشل میڈیا سہولیات فراہم کرنے والے غیرملکی ادارے پاکستان کے مطابق اپنی سوچ اور کاروباری حکمت عملیاں تبدیل کریں گے! فیصلہ سازوں کو انٹرنیٹ کی آزادی سے جڑی انسانی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے اُن تصورات سے بھی آشنا ہونا پڑے گا جو عالمی طور پر مسلمہ ہیں اور اُن میں ہر صارف کو سوچنے‘ بولنے‘ لکھنے سمیت اپنے قول و فعل کے ذریعے اظہار ِخیال کی آزادی‘ حاصل ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک نکتہئ نظر اختلافی بھی ہو سکتا ہے!
سال 2020ء کے اختتام پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ٹک ٹاک صارفین کی تعداد قریب ساڑھے چھ کروڑ (65.9 ملین) سے زیادہ تھی جن میں سب سے زیادہ فعال صارفین کا تعلق روس (16.4 ملین) اور جاپان (12.6) سے تھا۔ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ ٹک ٹاک صارفین ہیں جنہیں سال رواں چوتھی مرتبہ ٹک ٹاک پابندی کا سامنا ہے اور اگر اِس مرتبہ بھی چند ہفتوں بعد پابندی ہٹا دی گئی‘ تب بھی مستقبل قریب میں غیریقینی کی صورتحال برقرار رہے گی کیونکہ یہ معاملہ صرف ’ٹک ٹاک‘ کی حد تک محدود نہیں بلکہ ’ٹک ٹاک‘ ہی کی طرح دیگر ایسے وسائل بھی ہیں‘ جہاں غیراخلاقی ویڈیوز کی بھرمار کے علاوہ ’براہ راست (آن لائن)‘ بات چیت کے ایسے گروپ تخلیق کئے جا سکتے ہیں‘ جن کی ویڈیو کالز پر ایک جیسے مشاغل رکھنے والے اپنے اپنے خیالات و جذبات کا شدت سے اظہار کرتے ہیں۔ بنیادی ضرورت اخلاقی تربیت اور اچھے بُرے کی تمیز سے متعلق شعور و آگہی کی ہے۔ حکومت پاکستان سوشل میڈیا کی تطہیر چاہتی ہے جو ناممکن ہے اور اگر اِس پیمانے (اصول) پر سمجھوتہ نہ کیا گیا تو پاکستان میں سوائے مقامی ویب سائٹس اور ایپس تمام مقبول سوشل میڈیا رابطوں اور سلسلوں پر پابندی عائد کرنا پڑے گی۔ سوشل میڈیا سے نفرت‘ اِظہار لاتعلقی اور بیزاری کی بجائے اگر اِسے سمجھا اور سمجھایا جائے تو اِس بظاہر چھوٹی ایجاد اور مبینہ تخریب کی مدد سے طرزحکمرانی کی اصلاح سے لیکر سماجی یک جہتی‘ درس و تدریس اور طب کے شعبوں میں صارفین کیلئے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔