یادش بخیر ایڈورڈز کالج میں ایک اردو مشاعرہ ہو رہا تھا پشاور کی ایک معروف علمی اور ادبی بزرگ شخصیت اور ایڈروڈ کالج کے سابقہ طالب علم نظامت کے فرائض انجام دے رہے تھے، یہ مشاعرہ انہی سابقہ طلبہ کی انجمن المنائی ایسوسی ایشن کی طرف سے ترتیب دیا گیا تھا آخری شاعر کو ناظم نے ان الفاظ کے ساتھ دعوت دی کہ اب میں اپنے اس ادارے کے سابق طالب علم اور اپنے ایک ایسے مایہ ناز شاگرد کو دعوت دے رہا ہوں جن پر مجھے بہت فخر ہے تشریف لاتے ہیں احمد فراز، احمد فراز روسٹرم پر آئے اور غزل سے پہلے ایک ایسی بات کہی کہ ویسے بھی نہیں بھولتی مگر گزشتہ دو تین دن سے تو نہ صرف یاد آرہی ہے بلکہ عجب لطف بھی دے رہی ہے، انہوں نے ناظم ِ مشاعرہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”پروفیسر صاحب کا ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنا شاگرد کہا ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی پروفیسر صاحب دروازے سے کلاس میں داخل ہوتے میں کھڑکی کے راستے نکل جایا کرتا تھا“۔ اور پھر مزید زیر لب یہ کہا ”اور شاید یہی چیز کام آگئی“ اس لئے دو چار روز سے جب میں امتحانات کے حالیہ نتائج کی خبریں دیکھ اور سن رہا تھا اور سوشل میڈیا سے جڑا ہر دوسرا شخص پوسٹ لگا رہا تھا کہ اس کا بیٹا بھتیجا یا بھانجا یا بیٹی کامیاب ہو گئی ہے اور نو سو سے زیادہ یا پھرہزار سے بھی زیادہ نمبر لئے ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے زمانے میں شروع شروع میں تو محض پاس فیل کا تصور تھا،چھوٹی کلاسوں میں سب بچے گا گا کر کہتے تھے ”جب نتیجہ نکلے گا۔ کوئی روئے گا کوئی ہنسے گا“ مگر یہ ہمارے لئے کھیل کی طرح تھا گویا ہار جیت سے زیادہ اسے توجہ نہیں دی تھی اور جب آٹھویں کلاس میں بورڈ کے امتحانات تک پہنچے توقدرے سنجیدگی سے تیاری کی امتحان دیا اور پھر نتیجہ کے دن کا انتظار شروع کر دیا،نماز کے بعد دیر تک جائے نماز پر بیٹھ کر اچھے نتیجہ کے لئے دعا مانگتے رہے، مگر یہ دعا بھی صرف پاس ہونے کے لئے تھی۔ ان دنوں نتائج اخبارات میں آتے تھے،جس صبح نتیجہ آنا ہو تا وہ رات عجب کشمکش میں گزرتی تھی وہ جو گلزار نے کہا ہے کہ
سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے
تھی رات رات کی زندگی گزار چلے
بس ایسی ہی کیفیات میں رات گزرتی، صبح اخبار خریدنا اپنا نام تلاش کرنا اور پھر پاس ہونے کی صورت میں بھاگ بھا گ کر آنا سب اب خواب سا لگتا ہے، کوئی پڑھا لکھا پوچھ لیتا کہ کتنے نمبر آئے ہیں تو عجیب لگتا، کہ بھلا نمبر وں کو کس لئے پوچھتا ہے کیا کم ہے کہ پاس ہو گئے، البتہ میٹرک میں تھوڑا بہت نمبر وں کے بارے میں سوچتے تھے کہ جاننے والے بتاتے تھے کہ کالج میں داخلہ کے لئے زیادہ نمبرز درکار ہوں گے۔ اس لئے نتیجہ کا انتظار تشویش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں کسی بھی سکول میں کسی لڑکے کے نمبر چار پانچ سو سے زیادہ نہیں آ یا کرتے تھے اور اگر کسی طالب علم کے نمبر چھے سو آ جاتے تو لوگ اسے دیکھنے جایا کرتے تھے اسی طرح سکول کا نتیجہ چالیس سے پچاس فی صد تک بمشکل پہنچتا تھا اس سے زیادہ آتا تو اس سکول کے بڑے چر چے ہوتے، اس کے ہیڈ ماسٹر (بعد میں پرنسپل کہلائے) کی اخبارات میں تصویریں آتیں اور علاقے میں ان کا بڑا نام ہوتا شہروں میں بھی یہی حال تھا۔ چنانچہ پشاور کینٹ نمبر ون سکول کے حسنین نقوی،نمبر دو کے گل افضل خان اور سٹی سکول کے عتیق احمد سمیت کتنے ہی پرنسپل آج بھی سب کو یاد ہیں، ایک ہی پشاور بورڈ تھا جس کے نتائج بیس سے چالیس فیصد تک ہی آتے، مگر تب ان اداروں سے باہر آنے والے طالب علم نمبروں سے ہٹ کے ذہین ہوا کرتے تھے بلکہ پشتو زبان روزمرہ کے مطابق کسی کم تعلیم یافتہ شخص کی ذہانت کی بات ہو تی تو کہا جاتا،”آخر پرانے وقتوں کا چار جماعت پاس“ شخص ہے ذہین تو ہو گا۔ اگلے وقتوں کے چار جماعت پاس شخص کی بات کیوں کی جاتی جب کہ اب تو علم کی طرح رفتہ رفتہ تعلیم کا بھی کوئی انت نہیں ہے، پرانے زمانے کے سولہ جماعت پاس کا روزمرہ بھی اب کم کم سننے میں آتا ہے، ہمارے بچپن میں اکوڑہ خٹک کے پورے قصبے میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر،ڈاکٹر شیر بہادر تھا، مگر اس سے زیادہ مقبول وہ ڈاکٹر تھے جو مستند ڈاکٹر نہ تھے بلکہ ڈسپنسر تھے ان میں سے ایک ڈاکٹر چودھری تو لیجنڈری حیثیت رکھتے تھے کہا جاتا تھا کہ ان کے ہا تھ میں شفا ہے۔ وہ سب اچھے وقتوں کے پڑھے ہو ئے تھے جب تعلیم حاصل کرنے والے شہر کے خاص لوگوں میں شمار ہو تے تھے، مقابلے کے امتحانات میں شرکت کرنے والے تو مثالی کردار بن جاتے تھے، اب بھی میں اپنے پرائمری کلاس کے نصاب میں شامل پشتو اور اردو کی کہانیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت حیران ہوتا ہوں کہ ان میں چھپی دانش کی تہیں کہیں اب جاکر کھل رہی ہیں، اب بھی ماضی کے بڑے شعرا ء و ادبا ء کے افکار پڑھ کر یہی خیال آ تا ہے کہ ان کا مشاہدہ کتنا قوی تھا جسے رسمی مطالعہ کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی، یقینا مطالعہ ہی پہلی سیڑھی ہے مگر یہ مطالعہ علمی کتب کا ہے جن کا نصابی کتب سے اس لئے اب کم کم تعلق ہے کیونکہ جانے کب اور کیسے ہماری تعلیم سے علم کو منہا کر دیا گیا ہے اس لئے ہمارے تعلیمی ادارے تعلیم یافتہ کھیپ تو معاشرے کو دے رہے ہیں مگر عالم نہیں، لیکن حالیہ نتائج نے تو ثابت کر دیا کہ اب تو تعلیمی اداروں میں پڑھے لکھے طلبہ کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ہر طالب علم کو بہت مشکل سے ٹوٹل نمبروں تک پہنچنے سے روکنا پڑ رہا ہے،ہمارے ہاں تعلیمی اداروں سے گریجویشن کرنے والے طالب علم چودہ برسوں میں سے ملا جلا کے کوئی پانچ سات سال ہی سکول کالج جاتے ہیں کیونکہ گرمی کی چھٹیاں،سردی کی چھٹیاں،بہار کی چھٹیاں، تہواروں کی چھٹیاں،ہفتہ وار چھٹیاں اور ہنگامی حالات میں بند رہنے والے اداروں سے بی اے کرنے والا محض چند ہی برس سکول جاتا ہے، اور اب کے ڈیڑھ دو برس میں تو لاک ڈاؤن کے نام پر مسلسل بند رہنے والے اداروں سے اگر بچے ٹوٹل نمبرز کے اطراف میں ہی نمبر لے رہے ہیں تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں اس پر مستزاد ایک ذمہ دار افسر کی وضاحت کہ گیارہ میں سے گیارہ سو نمبر لینے والی طالب علم کے نمبر تو گیارہ سو زیادہ بنتے تھے مگر ہم نے اسے گیارہ سو ہی دئیے۔ اسے کہتے ہیں عذر گناہ بد تر از گناہ،اب یہ تو سیدھی بات ہے کہ رعایتی یا اضافی نمبر کے لئے کوئی طریق کار بنا کر لاگو کیا جاتا خیر سوشل میڈیا میں کسی نے ان نتائج پر پر ایک ’پھبتی‘ کیا خوب کسی ہے کہ ’کل کسی کام سے بورڈ کے دفتر کے آگے سے گزر رہا تھا، مجھے بھی دو سو نمبر دے دئیے‘ اور ایک صاحب نے لکھا کہ اگر تعلیمی ادارے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اتنا عرصہ بند رہنے پر اتنا عمدہ ریزلٹ آتا ہے تو اس سے بھی اچھا ریزلٹ حاصل کرنے کے لئے ان تعلیمی اداروں کو مستقل بند کیا جائے اور یہ وہ بات ہے جو اسی کی دہائی کے وسط میں احمد فراز نے کہی تھی۔ ”کہ یہی چیز کام آئی“ویسے میں بہت خوش ہوں کیونکہ پورے نمبر حاصل کرنے والی طالبہ میرے گاؤں ہی کی نہیں میرے گھر سے چارقدم دور پر واقع سکول سے ہے۔مومن خان یاد آ گئے
یہ عذر ِ امتحان ِ ِ جذب ِ دل کیسا نکل آ یا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا