سیاسی اختلاف کی پاداش میں سزائے موت پانے والے ایک قیدی کی روداد (آپ بیتی) بعنوان ’کئی سُولیاں سرِراہ تھیں‘ کا چوتھا ایڈیشن سانجھ پبلی کیشنز (لاہور) نے شائع کیا ہے جس میں خواجہ آصف جاوید بٹ ایڈوکیٹ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ محفوظ کیا ہے۔ نئی نسل کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لئے آصف بٹ کی مذکورہ کتاب اِس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے اگرچہ آصف بٹ نے اُنہی پہلوؤں پر زیادہ بات کی ہے جن کا اُن کی اپنی ذات و مشکلات سے تعلق تھا لیکن کتاب میں زیربحث لایا گیا موضوع بے پناہ وسعت رکھتا ہے اُور اِس میں اُن سبھی پہلوؤں (بے رحم روئیوں) کا کہیں سرسری‘ اجمالاً تو کہیں تفصیلاً و دستاویزی طور پر ذکر موجود ہے‘ جب ظلم وستم کی انتہا کی گئی۔ 471 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو پڑھ کر پاکستان میں جمہوری اقدار کی نہ صرف سمجھ آتی ہے کہ کس طرح کھٹن راستوں سے گزر کر یہ نعمت میسر آئی ہے اُور اِس کی حفاظت کیوں ضروری ہے۔ یہ سبھی احساسات کتاب میں جابجا تحریر ملتے ہیں۔ قفس در قفس کے باب میں جاوید بٹ نے ’سنٹرل جیل پشاور‘ میں گزرے اپنے شب و روز کا بھی ذکر کیا ہے جب اُنہیں پنجاب کے قیدخانوں سے پشاور جیل منتقل کیا گیا اور یہاں جب اُنہوں نے پختون مہمان نوازی اور احترام کو قریب سے دیکھا۔ ”پشاور جیل میں میلے کا سماں“ سے متعلق مشاہدات خاصے دلچسپ ہیں جن کی روشنی میں اُس وقت کی طلبہ یونین سیاست اور تعلیمی اِداروں بشمول جامعات میں رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تعلیمی اِداروں میں سیاست متعارف کروائی گئی۔ کیا تعلیمی اداروں میں سیاست ہونی چاہئے؟ طلبہ سیاسی تنظیموں پر پابندی کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ اِس حوالے سے وہ سبھی سیاسی کارکن زیادہ بہتر و جامع انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں جو اِس پورے عمل سے گزرے ہیں۔ جاوید بٹ کی پشاور سنٹرل جیل سے متعلق یاداشت میں تحریر ہے کہ ایک دن 20 کے قریب مختلف کالجوں کے طلبہ کا گروپ جیل میں وارد ہو کر میرے والی بیرک (کمرے) میں آ مقیم ہوا۔ یہ سب کے سب ’پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کئے گئے تھے۔ اِن میں ڈاکٹر اظہر جدون‘ ڈاکٹر کمال (مرحوم)‘ جہانزیب‘ قاسم جان اور جاوید اختر (مرحوم) وغیرہ شامل تھے۔ اِن سب کے آ جانے سے (قیدخانے) میں عید کا سا ماحول پیدا ہو گیا۔ یہ سب عمر میں مجھ سے تو بہرحال جونیئر تھے جب کوئی 21 سال کا ہو اور آپ 27 سال کے تو اس وقت یہ فرق واضح محسوس ہوتا ہے۔ پہلے دو چار دن تو مجھے میری بزرگی کی قیمت ’صیغہ جمع‘ میں ادب کے ساتھ بُلا کر ادا کی گئی لیکن پھر مجھے بھی یہ لوگ گدگدی کرنے پر آگئے اُور یوں چھ سال عمر میں بڑا ہونے کا فرق جاتا رہا۔نظریات کی سیاست اور اصولوں کی رہنمائی میں سفر کی ہر منزل پہلے سے زیادہ کھٹن اور دشوارگزار ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ سیاست میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سیاسی قیدیوں کو ”سر راہ‘‘کتنی سُولیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اِنہیں کس قدر جسمانی تکالیف و ذہنی اذیت سے واسطہ رہتا ہے۔