انسانی بقاء کو درپیش سنگین خطرات

عالمی ادارہ صحت نے فضائی آلودگی کوانسانی صحت کیلئے سب سے بڑاخطرہ قرار دیا ہے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی سے سالانہ 70 لاکھ افراد قبل جوانی ہی میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں یہ تعداد دنیا بھر میں کورونا وائرس سے مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ڈبلیو ایچ او نے ہوا کے معیار سے متعلق گائیڈ لائن کو مزید سخت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ گائیڈ لائنز سے تجاوز کرنا انسانی صحت کیلئے سنگین خطرہ بن سکتا ہے گائیڈ لائنز کا مقصد لوگوں کو فضائی آلودگی کے منفی اثرات سے بچانا ہے اور حکومتوں کو ان معیارات کی تکمیل کیلئے قانونی طور پر پابند کرنا ہے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ فضائی آلودگی انسانی صحت پر مہلک اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی نئی گائیڈ لائنز میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار کو ہوا میں کم کرنے پر زور دیا گیا۔ہم عام طور پرفیکٹریوں،کارخانوں اور بھٹہ خشت کی چمنیوں سے اٹھنے والے دھوئیں، کیمیکل ملے پانی، کوڑا کرکٹ، اورگرد و غبارکو ہی آلودگی سمجھتے ہیں۔ اور آلودگی ختم کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ آلودگی پھیلانے اور ماحول کو خراب کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے ہم اپنے گھر کی صفائی کرکے کوڑا کرکٹ دروازے یا کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیتے ہیں جانوروں کی آلائشات گلی کے نکڑ پر کھلی جگہ ڈال دیتے ہیں، کتے، بلیاں اور پرندے انہیں پوری گلی میں پھیلادیتے ہیں اور ایک گھر کی لاپرواہی سے پورا محلہ غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہم جب کھٹارہ گاڑیاں لے کر سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہمیں پروا نہیں ہوتی کہ گاڑی سے نکلنے والا زہریلا دھواں کتنی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ہم اتنے عجلت پسند اور بے صبرے واقع ہوئے ہیں کہ ٹریفک سگنل میں چند سیکنڈ کیلئے رکنے کی تاب نہیں لاتے۔سامنے گاڑیوں کی قطار لگی ہوتی ہے اور ہم پریشر ہارن بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ پریشر ہارن کے شور سے بھی انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے بچاؤ میں درخت، جنگلات، پودے اور سبزہ اہم کردار ادا کرتے ہیں موجودہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی کے نام سے شجرکاری مہم شروع کررکھی ہے جبکہ مرکزی حکومت نے بھی اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں دس ارب درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ گذشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بھی بلین ٹری منصوبے کی تعریف کی ہے۔ ا ن کا کہنا تھا کہ دنیا پاکستان کے بلین ٹری منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، تمام ملکوں کو پاکستان کے شاندار منصوبے کی پیروی کرنی چاہئے، عالمی درجہ حرارت میں 1.5 درجے کمی کیلئے تمام ممالک کو مل کر کوششیں کرنی ہونگی اوردنیا کو ماحولیاتی اور فضائی آلودگی سے بچانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔قدرتی ماحول کو بچانے کی ذمہ داری صرف حکومتی اداروں یا غیر سرکاری تنظیموں پر نہیں چھوڑی جاسکتی۔