اَنگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں 57 کتابیں تحریر کرنے والے رومانین نژاد اَمریکی مصنف‘ نوبل اِنعام یافتہ اِیلی وایسل (Elie Wiesel) نے کہا تھا کہ ”یاداشت کے بغیر ثقافت‘ تہذیب اور مستقبل محفوظ نہیں بنائے جا سکتے۔“ دانشور کے اِس قول سے معلوم ہوا کہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے لازم و ملزوم (مشروط) ہے کہ ’قومی حافظہ‘ قوی ہونا چاہئے جبکہ وقتی اقدامات اور انتظامات کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنی ذات میں مسئلہ ہوتے ہیں اور چونکہ اِس نتیجہ خیال کا براہ راست تعلق ہر شعبہئ زندگی بشمول طرزحکمرانی سے لیکر سیاسی و سماجی روئیوں سے ہے‘ اِس لئے سمجھنا ضروری ہے کہ اصلاح ’آگے دوڑ اور پیچھے چھوڑ“ کے ذریعے ممکن نہیں۔ جسے ایک مثال سے باآسانی سمجھا اُور سمجھایا جا سکتا ہے۔ پشاور پولیس کے متعلقہ شعبے نے ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی چہلم اِمام حسین رضی اللہ عنہ (اٹھائیس ستمبر) کیلئے ’خصوصی ٹریفک پلان (حکمت ِعملی)‘ تشکیل دی ہے جس کی تفصیلات کے مطابق چہلم کے موقع پر صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے 13ایس پیز اور 11 ڈی ایس پیز سمیت ایک ہزار سے زائد پولیس نفری تعینات کر دی گئی ہے تاکہ شہریوں اور عزاداروں کو آمدورفت میں کسی قسم کی مشکلات درپیش نہ آئیں۔ٹریفک سے جڑے پشاور کے مسائل کا تعلق کسی ایک موقع‘ مناسبت یا تہوار سے نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ اندرون و بیرون شہر کے علاقوں میں آمدورفت میں مختلف رکاوٹیں حائل ہیں۔ اندرون شہر ٹریفک کی روانی کو تجاوزات متاثر کرتی ہیں جبکہ بیرون شہر ذیلی شاہراؤں کی حالت زار اور نکاسیئ آب کا نظام ایسی دو بنیادی محرکات ہیں جن کی وجہ سے تمام تر ٹریفک کا بوجھ ’مرکزی شاہراہ (جی ٹی روڈ)‘ پر برقرار رہتا ہے۔ پشاور میں تعمیروترقی کیلئے ایک سے زیادہ حکومتی ادارے فعال ہیں‘ جن کے علم و تجربے اور نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن ترقیاتی کاموں کی ناپائیداری (خراب معیار) ایک ایسا المیہ ہے جس سے کئی المیے جنم لیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سرکاری ادارے آپس میں مربوط نہیں۔ ایک محکمہ سڑک بنا کر جاتا ہے اور ابھی تعمیر پوری طرح خشک بھی نہیں ہوئی ہوتی کہ دوسرا حکومتی محکمہ اُسے توڑنے یا اکھاڑنے آ جاتا ہے اور یوں بات گھوم پھر کر اُسی جگہ آ جاتی ہے جہاں تعمیر پر تخریب کا شائبہ ہوتا ہے۔پشاور کیلئے ٹریفک پلان (حکمت عملی) میں ٹریفک علامات و اعلانات (سگنلز اور بورڈز) کا سہارا کیوں نہیں لیا جاتا؟ فٹ پاتھ‘ زیبرا کراسنگ‘ زیادہ سے زیادہ رفتار کی حد‘ ون ویز اور پارکنگ ایریاز مقرر کیوں نہیں کئے جاتے؟ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں سے ہاتھوں ہاتھ ہر ماہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں روپے جرمانے کی صورت وصول کئے جاتے ہیں اور اِن جرمانوں کا ایک خاص تناسب ٹریفک کے اعلیٰ و ادنیٰ اہلکاروں میں بطور ’شاباسی‘ تقسیم کیا جاتا ہے لیکن ٹریفک نظام کی وسعت و بہتری اور تشکیل (تحقیق و ترقی) کیلئے اِن جرمانوں کا خاص تناسب مختص ہونا چاہئے۔ عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ جہاں کہیں ٹریفک قواعد پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو اُس کی بنیادی وجوہات میں ’عوامی شعور کی کمی‘ اور حسب قواعد ’ٹریفک سگنلز و اعلانات‘ کا نہ ہونا ہے۔ پشاور کے ذرائع آمدورفت میں سختی صرف عوام سے ہوتی نظر آتی ہے۔ کمرشل (پبلک ٹرانسپورٹ) گاڑیوں کو من چاہی آزادی حاصل ہے اور اِس کی مبینہ طور پر بنیادی بہت سی وجوہات ہیں جن کا تدارک آسانی سے کیا جا سکتا ہے تاہمعملی اقدامات کی ضرورت ہے۔جس کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اِس مبینہ و عمومی تاثر کی تحقیق کی جائے تو ٹریفک سے ٹریفک تک پھیلے مسائل سب پر عیاں ہو جائیں گے اور یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی کہ کس طرح ٹریفک کا نظام ایک خودکار طریقے سے چل رہا ہے اور فیصلہ سازی کے منصب پر فائز کردار نہ تو مشکل فیصلے کر رہے ہیں اور نہ ہی ایک عرصے سے محسوس ہونے والی اصلاحاتی عمل کی ضرورت کو ضروری سمجھا جا رہا ہے۔