طب کی بنیادی تعلیم (ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس) حاصل کرنے خواہشمند طلبا و طالبات کو اپنی ذہانت‘ اہلیت اور برتری ثابت کرنے کیلئے 2 امتحانی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا 10ویں کلاس (میٹرک) کے بعد شروع ہوتا ہے اور اِس 2 سالہ دور (گیارہویں اور بارہویں جماعتوں) میں اُنہیں ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہوتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ کسی طالب علم کی زندگی کے یہی 2 سال اُس کی باقی ماندہ عملی زندگی کا تعین کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ’ایف اے / ایف ایس سی‘ طلبہ کی زندگی کا ”اہم ترین موڑ“ سمجھا تو جاتا ہے لیکن اِس کے تحفظ اور درست رہنمائی کے علاوہ کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد کے مطابق داخلوں کا اہتمام و انتظام نہیں کیا جاتا۔ ہر سال طب و دیگر تعلیمی شعبوں میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی بڑی تعداد (اکثریت) داخلوں سے محروم رہ جاتی ہے لیکن بالخصوص طب کے تعلیمی اداروں میں نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی و ضرورت (خاطرخواہ) اضافہ نہیں کیا جاتا تو آخر تعلیمی اداروں کی تعداد یا اِن میں ہر سال نشستوں کی تعداد بتدریج بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے اور اِس سلسلے میں عوام کا دیرینہ مطالبہ کیوں سُنا اَن سُنا کیا جا رہا ہے۔ طب کی تعلیم سے متعلق حکومتی بندوبستکے بارے شکایت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ حالیہ احتجاج اُن طلبہ کی جانب سے جاری ہے جو اپنے والدین کے ہمراہ چاروں صوبوں سے ’اسلام آباد‘ میں میڈیکل کمیشن کے سامنے جمع ہوئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن احتجاج کرنے والوں نے پچیس اور چھبیس ستمبر کی ساری رات ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے صدر دفتر کے سامنے کھلے آسمان تک بسر کی۔ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے اور تھک ہار کر میڈیکل کمیشن کے سامنے سڑک اور ملحقہ سبزہ زار پر سو گئے تاہم اُنہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ ہار نہیں مانیں گے اور احتجاج جاری رکھتے ہوئے اِس کا دائرہ بھی بڑھایا جائے گا۔ آخری خبریں آنے تک ڈاکٹروں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA)‘ نے بھی طلبہ کی حمایت کر دی ہے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ سبھی فریقین نے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے ۔ خاص بات طلبہ کی اہلیت جانچنے کے معیار (MDCAT) نامی امتحان ہے‘ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اِس کی خاطرخواہ تیاری کیلئے طلبہ کو وقت نہیں دیا گیا اور پے در پے امتحانات کی وجہ سے طلبہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مقدمے میں یہ نکتہ شامل نہیں کہ طلبہ کی اہلیت جانچنے کیلئے اُنہیں ایک سے زیادہ امتحانی مراحل سے واسطہ پڑتا ہے میڈیکل کمیشن سے متعلق دوسرا اعتراض (عذر) یہ پیش گیا ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی (تعلیمی اہلیت جانچنے کا) امتحانی مرحلہ پانچ مختلف نصابوں (چار صوبوں اور وفاقی تعلیمی نصاب) پر مشتمل ہے‘ جس میں کامیابی کیلئے کم سے کم 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں۔ یہ پینسٹھ فیصد نمبر بورڈ امتحان میں پاس ہونے کے مقررہ معیار سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل بار بار تعطل کا شکار رہا ہے اسکے باوجود میڈیکل و ڈینٹل تعلیم کے خواہشمند طلبا و طالبات سے ’پاسنگ مارکس‘ کم کرنے کی صورت رعایت کیوں نہیں کی گئی؟ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم میں داخلوں کیلئے اہلیت کا امتحان (ایم ڈی کیٹ) منعقد کرنے کا اختیار صوبوں کو ہونا چاہئے کہ وہ امتحان کے نصاب‘ امتحان کی تاریخ اور امتحان کے آن لائن یا آف لائن طریقہئ کار سے متعلق فیصلہ خود کریں۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس ہونے والے مذکورہ ’ایم ڈی کیٹ امتحان‘ کے نتائج ایسے طلبا و طالبات کیلئے مایوسی کا باعث بنے ہیں جو سکول و بورڈ امتحانات کے دوران یعنی اپنے پورے تعلیمی عرصے (ایجوکیشن کیرئیر) میں نمایاں رہے لیکن وہ ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے یا اِس امتحان کو بھی امتیازی نمبروں سے پاس نہ کر سکے۔ یہ صورتحال صرف طلبا و طالبات ہی کیلئے نہیں بلکہ والدین اور اساتذہ کیلئے پریشان کن ہیں جنہوں نے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب میں اپنا پیٹ کاٹ کر اور اپنی ضروریات کی قربانیاں دے کر سرمایہ کاری کی۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کو لاکھوں کی تعداد میں طب کی تعلیم کے خواہشمند طلبہ اور اِن کے والدین میں پائی جانے والی تشویش و پریشانی کا سدباب کرنے کیلئے خاطرخواہ فوری اور باعث ِاطمینان عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔