واپڈانے یہ نوید سنائی ہے کہ حالیہ دنوں میں پن بجلی گھروں سے نیشنل گرڈ کو 8 ہزار 854 میگاواٹ بجلی فراہم کی گئی جو ایک ریکارڈ ہے رپورٹ کے مطابق تربیلاسے چار ہزار 926 میگاواٹ‘منگلا ہائیڈل پاور سٹیشن سے 920 میگاواٹ، غازی بروتھا سے 1450 میگاواٹ‘نیلم جہلم سے 850میگاواٹ جبکہ دیگر چھوٹے بجلی گھروں سے 708میگاواٹ پن بجلی قومی گرڈ کو مہیا کی جارہی ہے‘ ملک بھر میں واپڈا کے پن بجلی گھروں کی تعداد 22ہے جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 9 ہزار 406میگاواٹ ہے‘ جو نیشنل گرڈ کوسالانہ 37 ارب یونٹ سستی پن بجلی مہیا کرتے ہیں‘رپورٹ کے مطابق پانی سے بجلی پیدا کرنے کے مختلف منصوبے اگلے سات سالوں کے دوران مکمل ہوں گے ان منصوبوں کی تکمیل سے واپڈا کی پیداواری صلاحیت9ہزار 406میگاواٹ سے بڑھ کر 18ہزار 431 میگاواٹ ہو جائیگی اور نیشنل گرڈ کو مہیا کی جانیوالی سستی اور ماحول دوست بجلی بھی 37ارب یونٹ سے بڑھ کر 81ارب یونٹ سالانہ ہو جائے گی۔سابقہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ملکی ضروریات سے زیادہ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کا ہدف حاصل کیا تھا۔ موجودہ حکومت بھی بجلی کی پیداوار میں مزید ہزاروں میگاواٹ اضافے کا دعویٰ کر رہی ہے‘ اسکے باوجود لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نجات نہیں مل رہی۔ واپڈا کا موقف ہے کہ ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں،تاہم ڈسٹری بیوشن کا نظام بوسیدہ ہے اور پرانی ٹرانسمیشن لائنیں زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتیں۔ لوڈ شیڈنگ صرف ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے اور بل ادا نہیں کئے جاتے۔ بجلی کی چوری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے بیشتر سرکاری ادارے واپڈا کے اربوں کے مقروض ہیں۔ اگرتمام نادہندہ سرکاری ادارے اپنے ذمے کے بقایاجات ادا کریں تو شاید واپڈا کو بجلی کی قیمت آئے روز بڑھانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں صرف چالیس فیصد بجلی پانی سے پیدا کی جاتی ہے جبکہ ساٹھ فیصد ضروریات تیل، ایٹمی ٹیکنالوجی‘ سولر‘ ونڈ ملز اور کوئلے سے بجلی پیدا کرکے پوری کی جاتی ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بھی بڑھتی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔قیمتوں میں اضافے کے علاوہ اووربلنگ بھی صارفین کیلئے ایک سنگین مسئلہ ہے‘ملک میں بجلی اور گیس کے استعمال کی مقدار بڑھنے کے ساتھ اسکے ریٹ بھی تبدیل ہوتے ہیں‘ ایک سو یونٹ استعمال کرنے پر بجلی کی فی یونٹ قیمت بارہ روپے بنتی ہے۔ دو سویونٹ کے استعمال پر فی یونٹ قیمت سولہ روپے بنتی ہے۔ تین سو یونٹ استعمال پر فی یونٹ بائیس، چار سو یونٹ پر اٹھائیس اور پانچ سو یونٹ سے زائد استعمال پر بتیس روپے فی یونٹ صارفین سے وصول کئے جاتے ہیں‘ اصولی طور پر ایک یونٹ سے ایک ہزار یونٹ تک بجلی کے استعمال کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہئے۔ صارفین کا اعتماد بحال کرنا بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔لائن لاسز بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پانے کیلئے جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے کمپنیاں اپنے طور پر اصلاح احوال کیلئے کوششیں کررہی ہیں لیکن اس کے ثمرات صارفین تک نہیں پہنچ پاتے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے پالیسیوں پر نظر ثانی اور جامع حکمت عملی وضع کرنا ازحد ضروری ہے‘یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ توانائی کا شعبہ جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دباؤ کا شکار ہوا ہے وہاں پر بہت سے ایسے منصوبے بھی پروان چڑھے ہیں جس سے مسائل کو حل کرنے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے۔