ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف جرائم میں ملوث 67فیصدقیدی جیل سے رہائی کے تین سالوں کے اندر اور76فیصد پانچ سالوں کے اندر دوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتے ہیں۔ کسی جرم میں سزائے قید گذارنے والوں کومعاشرہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسے کسی جگہ ملازمت نہیں ملتی۔ اس کے ساتھ کوئی کاروبار کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اسے سزایافتہ قرار دے کر بینک بھی اسے قرضہ نہیں دیتے نہ ہی وہ کسی عوامی عہدے کا اہل تصور کیا جاتا ہے۔ جب بھری دنیا میں وہ تنہا رہ جاتا ہے تو پیٹ کی آگ بجھانے اور زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ دوبارہ ڈکیتی، رہزنی، چوری، اغوا ء برائے تاوان اور دیگر جرائم کی طرف راغب ہوتا ہے۔ جامعہ پشاور کے شعبہ کریمنالوجی کے زیر اہتمام مشاورتی ورکشاپ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مختلف شعبوں کے ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 22کروڑ آبادی میں 19سے30سال تک کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد 64فیصد ہے جبکہ تیس سال سے زائد عمر کے افراد کی مجموعی آبادی میں تناسب 36فیصد ہے۔ ہر سال کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے لاکھوں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع میسر نہیں۔ اس وجہ سے کچھ نوجوان منشیات کے عادی بن جاتے ہیں اور کچھ جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ چھوٹی موٹی چوری، دھوکہ بازی یا رہزنی میں ملوث یہ نوجوان جب جیل پہنچ جاتے ہیں تو وہاں انہیں پیشہ ور مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے ان کی صحبت میں رہنے کے بعدغیر ارادی یا اتفاقیہ جرم کرنے والے بھی ذہنی طور پر پیشہ ورچور، ڈکیت، اغوا ء کار، اجرتی قاتل بننے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل معاشرتی رویوں کے خلاف بغاوت بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ملک میں ہوشرباء مہنگائی، بے روزگاری،غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے بھی نوجوان زور بازو سے حق چھیننے پر تل جاتے ہیں۔ایک سینئر پروبیشن آفیسر نے بتایا کہ انہیں ایک خود کش حملہ آور کی کونسلنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ خود کش حملہ آور کی عمر صرف دس سال تھی۔ اس کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف پندرہ ہزار روپے اور ایک موبائل فون دے کر اسے خود کش بمبار بننے پر مجبور کیاگیاتھا۔ ٹاسک پورا کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔ قانون توڑنے والوں کو قید میں رکھنے کی سزا معلوم انسانی تاریخ سے جاری ہے۔ سزائے قید کا بنیادی مقصد قیدی کی اصلاح ہوتی ہے۔ جیل میں ٹارچر ہونے کے بعد کوئی شخص توبہ تائب ہوکر معمول کی زندگی کی طرف آنا بھی چاہئے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ معمولی جرائم میں ملوث نوجوانوں کی اصلاح، انہیں پیشہ ورانہ تربیت دیکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کا کوئی ادارہ موجود نہیں‘ اس کہانی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں سینکڑوں معصوم بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر سزائے قید کاٹ رہے ہیں جب وہ بچے جیلوں سے باہر آئیں گے تو ان کا مستقبل کیا ہوگا؟اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں۔مشاورتی ورکشاپ میں حکومت سے یہ سفارش کی گئی کہ جوینائل کے قانون میں عصری تقاضوں کے مطابق ترامیم کی جائیں۔ کم عمر بچوں کو پروبیشن افسروں کے سپرد کیاجائے۔