ایک اور تلخ تجربہ 

یہ حامدکرزئی کے دور حکومت کی بات ہے کابل کے امریکی سفارتخانہ میں ایک خفیہ بیٹھک ہوتی ہے جس میں اس وقت کے افغانستان کیلئے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کے ساتھ ساتھ سینیٹر کریڈ اور سینیٹرہیلری کلنٹن نے بھی شرکت کی اس بیٹھک میں پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کیلئے ڈبل گیم کی اصطلاح ایجاد گھڑی گئی یہاں سے یہ لوگ سیدھاحامدکرزئی کے پاس گئے وہ یہ اصطلاح سن کر خوشی سے اچھل پڑا اوریوں پھر اسکو ہوا دی جانے لگی لیکن حقیقت تو یہ رہی ہے کہ خود پاکستان کیخلاف ڈبل گیم کاجال بچھایا گیاتھا امریکہ کی سرزمین پر تاریخ کے سب سے خوفناک دہشتگردانہ حملوں کے بعد جب جارج ڈبلیو بش نے القاعدہ کا خاتمہ کرنے اور طالبان کو سبق سکھانے کیلئے افغانستان پر چڑھائی کی تو اس وقت انہیں اس اہم آپریشن کی کامیابی کیلئے پاکستان کے سہارے کی ضرورت پڑی۔ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کیلئے تین سال قبل طالبان کو مذاکرات پرآمادہ کرنے کیلئے بھی واشنگٹن نے اسلام آباد کا ہی دامن تھاما تھا۔لیکن بیس سال بعد ناکام و نامراد ہوکر جنگ زدہ ملک سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد واشنگٹن کاپیغام یہ ہے کہ اسے پاکستان کی ضرورت نہیں ہے پچھلے چند ہفتوں میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور امریکی انخلا ء میں افراتفری کی وجہ سے ہوئی رسوائی نے امریکی حکومت کوبرہم کردیا ہے امریکہ نے اپنی پیشانی پر لگے داغ دھونے کیلئے پہلے تو اشرف غنی حکومت اور افغان آرمی کی نااہلی کو طالبان کی فتح اور انخلا ء کی بدنظمی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی لیکن جب مشیروں نے عالم پناہ کو بتایا کہ غنی حکومت تو امریکہ کی کٹھ پتلی تھی اور افغان فوج تو امریکی فوجی ماہرین کے ذریعہ تربیت یافتہ تھی اسلئے انکی ناکامی بھی امریکہ کی ہی ناکامی کہلائے گی،تو واشنگٹن کی نظر انتخاب دیرینہ دوست پاکستان پر پڑی۔ پچھلے ہفتے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکی کانگریس میں افغانستان میں امریکی کی ناکامیوں کی ذمہ داری ہمارے سر ڈال ہی دی۔ انہوں نے پاکستان پر امریکی اور نیٹو افواج کی مدد کرنے کیساتھ ساتھ طالبان جنگجووؤں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کو پناہ فراہم کرنے اور افغانستان کے مستقبل پر بار بار اپنا موقف تبدیل کرنیکا الزام لگا دیا۔ بلنکن نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ امریکہ پاکستان سے اپنے رشتوں پر از سر نو غور کریگا۔بلنکن کی باتوں پر وزیر اعظم عمران خان نے برجستہ کہہ ڈالاکہ انہوں نے”ایسی جاہلانہ باتیں“پہلے کبھی نہیں سنی تھیں امریکی حکومتوں کی متلون مزاجی ہمیشہ سے اپنے مفاد ات کے گردہی گھومتی رہتی ہے مثال کے طورپر بش نے دہشتگردی کیخلاف عالمی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن حلیف کا رتبہ عطا کیا تھا مگر ا نکے دور میں ہی پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ڈرون حملے بھی شروع ہوگئے تھے اسی طرح کل تک انخلاء میں معاونت کی درخواست گذاربائیڈن حکومت کی نگاہوں میں آج پاکستان عسکریت پسندوں کا سرپرست بن چکا ہے۔ درحقیقت امریکہ کاماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب عمران خان نے واضح طورپر کہہ دیاتھا کہ طالبان نے”غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔“ عمران کے اس بیان نے بائیڈن کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا۔ افغانستان میں امریکہ کی پسپائی اور شرمناک انخلا ء پر چین اور روس جیسے حریف بغلیں بجارہے ہیں تو دوسری جانب برطانیہ اور فرانس جیسے نیٹو اتحادی بھی بے حد ناخوش ہیں۔ حریف اور حلیف دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں ناکامی نے اقوام عالم میں امریکہ کی ساکھ کو بٹہ لگایا ہے اور اسکی عالمی بالا دستی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر دفاع بین والیس نے کہہ دیا کہ امریکہ سپر پاور یاعالمی طاقت نہیں رہا۔اس صورتحال سے بچنے کی خاطر ہی بائیڈن حکومت پاکستان کے سر پر افغانستان کی ناکامی کا ملبہ ڈالنے پرآمادہ ہے امریکہ یہ وتیرہ رہاہے کہ جب اسکامقصد پورا ہوجاتاہے تو یہ سب سے پہلے اپنے قریبی اتحادی سے ہی نہ صرف آنکھیں پھیر لیتاہے بلکہ اسکی مشکلات میں اضافہ بھی کرتاہے۔مثال کے طورپر جب سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تو اگلے سال ہی امریکہ نے پاکستان پر پریسلر ترمیم کے ذریعہ پابندیاں لگادیں اسی طرح گذشتہ ایک عشرے سے یہ الزام عائد کیاجاتارہاہے کہ پاکستان افغانستان میں شروع سے ہی ”ڈبل گیم“کھیلتا رہا ہے۔ پاکستان وار آن ٹیرر میں اتنا اہم پارٹنر تھا کہ اسے امریکہ نے نان نیٹو اتحادی کا درجہ دے رکھا تھا لیکن اسی پاکستان پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ درپردہ طالبان اور القاعدہ کے لیڈروں کی مدد بھی کرتا ہے حالانکہ پاکستان نے طالبان یا کسی اور عسکریت پسند تنظیم کی سرپرستی، حمایت یا اس کیساتھ خفیہ سانٹھ گانٹھ سے ہمیشہ انکار کیا ہے اس سے تویہی ثابت ہوتاہے کہ دوستی کیلئے امریکہ کاکوئی معیار ہی نہیں ہے امریکہ کے انہی تیوروں کو دیکھتے ہوئے چند سال قبل آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل نے دعویٰ کیا تھا کہ تاریخ میں لکھا جائیگا کہ آئی ایس آئی نے پہلے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی اور اس کے بعد آئی ایس آئی نے(افغانستان میں) امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی۔ یہ دعویٰ انہوں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے دوران کیا تھاظاہرہے کہ جب امریکہ نے افغانستان میں پاکستان کیخلاف ڈبل گیم کاسلسلہ شروع کیا تو پھر پاکستان نے بھی امریکہ نہیں اپنے مفاد کو دیکھناتھا اورپاکستان نے یہی کیا اگر پاکستان ڈبل گیم میں ملوث ہوتا تو پھر اربوں روپے کے خرچہ اوردرجنوں جانوں کی قربانیوں سے پاک افغان سرحد پرباڑ لگانے کامشکل ترین مرحلہ یوں تن تنہا عبور نہ کرتا امریکہ ایک طرف افغانستان سے محفوظ انخلاء کیلئے طالبان سے تعاون کی بھیک مانگتاہے اوردوسری طرف طالبان پر دباؤڈالنے کیلئے بین الاقوامی برادری کو مالی امداد دینے سے منع بھی کرتاہے امریکہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک افغان حکومت حکومت کو مشکلات سے دوچار کئے رکھناچاہتاہے ان مطالبات میں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل جس میں تمام گروہوں کی نمائندگی ہو، انسانی حقوق بشمول عورتوں کے حقوق کے مکمل تحفظ کی یقین دہانی اور افغانستان کی سرزمین کو ہر طرح کی دہشتگردی سے پاک رکھنے کی ضمانت شامل ہیں اسوقت افغانستان بھاری اقتصادی بحران سے دوچار ہے اور اقوام متحدہ نے ملک میں غذائی قلت کے خطرے کی وارننگ دی ہے۔ عمران خان نے تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس اور اسکے بعد اقوام متحد ہ کے اجلاس سے ورچوئل خطا ب میں ایک بار پھر عالمی برادری سے اس مشکل گھڑی میں افغانستان کے عوام کیساتھ کھڑے ہونیکی اپیل کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ’ہمیں یاد رکھناچاہئے کہ افغان حکومت کا انحصار غیر ملکی ایڈ پر ہے اور اس وقت ضروری ہے کہ بلاتاخیر افغانستان کو امداد فراہم کی جائے۔“ ظاہرہے کہ افغانستان میں جو انسانی بحران پیدا ہو رہا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان سمیت تمام پڑوسیوں پر پڑیگا ان تمام باتوں کانچوڑ یہی ہے کہ سپر پاور کی نہ دوستی اچھی ہے اور نہ ہی ناراضگی کیونکہ سپر پاور کو صرف اپنے مفادات عزیزہوتے ہیں اورہمیں یہ روس اور امریکہ کے افغانستان میں شکست اور انخلاء ہر دومواقع پر اسکاتجربہ ہوچکاہے اور اب مزید کسی تجربہ سے خو د کوبچانا چاہئے۔