پشاور کہانی: وباء اور بیماری!

کورونا وبا ء کے دوران صوبائی دارالحکومت پشاور میں ستائیس ستمبر دوہزاراکیس کے دن تک 2 ہزار 612 اموات اور 62 ہزار 392 معلوم (رجسٹرڈ) مریض علاج معالجے کے موجود نظام پر شدید دباؤ کا باعث ہیں کیونکہ اِن میں ہر دن اوسطاً پچاس مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سرکاری و نجی علاج گاہوں میں بستروں اور ڈاکٹروں کی تعداد میں حسب ضرورت اضافہ ممکن نہیں۔ یہ مجبوری بھی لائق توجہ ہے کہ کورونا وباء سے متاثر ہونے والے کسی مریض کا علاج چند روز میں مکمل نہیں ہوتا بلکہ اُسے تین سے چار اور بسا اوقات اِس سے دو گنا زیادہ ہفتے درکار ہوتے ہیں اور یوں ہسپتالوں میں مریضوں کی موجودگی کے باعث نئے متاثرین کو داخلہ نہیں دیا جاتا اور اُنہیں اپنے اپنے گھروں پر الگ تھلگ رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ پشاور میں نجی علاج گاہوں اور ماہر معالجین کے مرکز ”ڈبگری گارڈن‘‘میں جو ہجوم پہلے سرشام دکھائی دیتا تھا اب اُس کا دباؤ سارا دن رہتا ہے۔ ماضی میں یہاں ماہر معالجین صرف معائنہ کرتے تھے لیکن اب چھوٹی بڑی جراحت اور مریضوں کو داخل کر کے اُن کی طبی نگہداشت کی سہولیات پھیل گئی ہیں۔پشاور میں کورونا وباء اور ڈینگی کے بڑھتے پھیلتے مرض کی وجہ سے اکثریت نجی علاج گاہوں سے رجوع کر رہی ہے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں کورونا وبا ء کے زیرعلاج مریضوں کی وجہ سے بہتر یہی ہے کہ ڈینگی کے لئے نجی علاج گاہوں کا رخ کیا جائے۔ اِس تاثر کو پھیلنے میں سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا گیا ہے اور ایسے پیغامات (پوسٹس) خاص منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی گئی ہیں‘ جن سے کورونا کی نئی لہر کا حوالہ دیتے ہوئے ڈینگی کے مریضوں کو نجی علاج گاہوں سے رجوع کرنے کے مشورے دیئے گئے ہیں اور اگر سوشل میڈیا کا یہ اِستعمال نہ بھی ہوتا تب بھی تعلیم و صحت جیسے دونوں شعبوں میں نجی اِداروں کی خدمات سے استفادہ کرنے کو زیادہ قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ سرکاری علاج گاہوں کے وسائل اور طبی و معاون طبی عملے کی اہلیت و قابلیت اور تجربہ نجی اداروں سے ہزار گنا بہتر (قابل بھروسہ و اعتماد) ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”ستائیس ستمبر کے روز (چوبیس گھنٹوں کے دوران) پاکستان میں مجموعی طور پر 1757 نئے کورونا مریضوں کا اضافہ ہوا۔ یومیہ 48 سے 50 ہزار افراد کے کورونا ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں جن میں اگرچہ مثبت کورونا مریضوں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن موسم کی تبدیلی کے ساتھ اِس کی شرح میں اضافہ متوقع ہے‘ جس کا ایک محرک عوام کی اکثریت کا کورونا وباء  سے بچنے کی احتیاطی تدابیر پر خاطرخواہ عمل درآمد نہ کرنا ہے۔پشاور میں کورونا وبا ء کی صورتحال اور شدت کا اندازہ ”خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘‘میں قائم ”پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری‘‘کے جاری کردہ نتائج سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ حالیہ اور گزشتہ ماہ (اگست و ستمبر) کے دوران 379 افراد میں کورونا وبا ء کی نئی قسم ”ڈیلٹا وائرس‘‘پایا گیا ہے جبکہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مرض کی جن علامات میں کورونا وباء کے تجزئیات سے ”ڈیلٹا وائرس‘‘کی موجودگی بارے تصدیق ہوئی اُس سے ملتے جلتے دیگر مریض بھی موجود تھے تاہم وسائل کی کمی کے باعث لیبارٹری تجزئیات چند مریضوں ہی کے کئے گئے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں جدید لیبارٹری قائم کی گئی ہے جو نہ صرف کورونا وبا ء کی موجودہ نئی شکل بلکہ دیگر اور مستقبل میں ظاہر ہونے والی ممکنہ نئی اقسام کی تشخیص کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے تاہم پورے صوبے میں صرف ایک مقام پر ایسی جدید لیبارٹری کا ہونا قطعاً کافی نہیں بالخصوص ایسی صورتحال میں جبکہ کورونا وبا ء کے مراکز (ہاٹ سپاٹس) پشاور کے علاوہ دیگر اضلاع بھی ہیں۔ صوبائی محکمہئ صحت کا پیغام ہے کہ کورونا وبا ء کے علاج سے بہتر اِس سے بچاؤ ہے جس میں چہرہ ڈھانپ کر رکھنا‘ بھیڑبھاڑ والے مقامات سے فاصلہ اور سماجی میل جول میں کمی کے علاوہ کورونا سے بچاؤ کی ویکیسین لگوانا‘ ایک ایسے بڑے خطرے کو ٹال سکتا ہے‘ جو آنے والے موسم سرما کا انتظار کر رہا ہے جب صرف کورونا ہی نہیں بلکہ دیگر بیماریاں پھیلانے والے جرثوموں (وائرسیز) کے پھیلنے کی صلاحیت اور شرح بڑھ جاتی ہے۔