قومی آمدن سے متعلق امور بارے فیصلہ ساز وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے اعلان کیا ہے کہ ”افغانستان سے تازہ پھلوں کی درآمد پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔“ اِس رعایت پر فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف سے تاجروں کے خیر مقدمی بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن کیا پاکستان اِس سے حقیقی فائدہ اُٹھا پائے گا؟ تازہ پھل افغانستان سے ہونے والی کل برآمدات کے ساٹھ فیصد سے زائد ہیں اور اِس اہم فیصلے سے یقینی طور پر دو ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ ہوگا لیکن چونکہ ہر عمل کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ہوتا ہے تو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان کی جانب سے دی جانے والی رعایت کی قیمت کیا ہوگی اور اِس سے عام پاکستانی کو کتنا فائدہ ہوگا؟ پاکستان کی جانب سے افغانستان کی معیشت و معاشرت کو سہارا دینے کی اِس تازہ ترین کوشش سے خیبرپختونخوا کی تاجر اور ٹرانسپورٹ و گڈز فارورڈنگ برادری زیادہ خوش ہے‘ جن کیلئے ٹیکس معافی نہ بھی کی جاتی اور صرف تجارت کو تیزرفتار بنایا جاتا تب بھی کافی تھا۔ چیئرمین ایف بی آر کا پاک افغان سرحد طورخم کا حالیہ غیرمعمولی دورہ کیا اور افغانستان سے آنے والے پھلوں کے چودہ سو
ٹرکوں کو کلیئر کروایا جو وہاں پھنسے ہوئے تھے۔ اِس موقع پر اُن کے ہمراہ رکن کسٹم طارق ہدیٰ اور رکن کسٹم پالیسی سعید جدون بھی تھے جنہوں نے طورخم پر سرحدی تجارت کی سہولت کیلئے پاکستان کسٹمز کی جانب سے فراہم کی جانے والی خدمات کی رفتار اور معیار کا جائزہ لیا اور کسٹم کے عملے نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ کلیئرنس کے منتظر مزید ایک سو ٹرکوں کو پاکستان داخلے کیلئے کاغذی کاروائی تیزی سے نمٹائی جائے گی۔ چیئرمین ایف بی آر نے طورخم سرحد کے دونوں اطراف کے تاجروں کے ساتھ ملاقات بھی کی اور دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے اور تجارتی بہاؤ کو ہموار و آسان بنانے میں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی بھی کرائی تاہم اُنہوں نے طورختم پر تعینات کسٹمز کے عملے کی کارکردگی اور اُن کے پیشہ ورانہ طرز عمل کے جس معیار پر تسلی کا اظہار کیا پاک افغان تاجروں کو اُن کے بارے شدید تحفظات رہے ہیں‘دوسری اہم بات یہ ہے کہ پھلوں کی درآمد پر ٹیکس معاف کرنے کا سارا فائدہ تاجر برادری اُٹھائے گی اور ایسا کوئی بھی امکان موجود نہیں کہ ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی منڈیوں میں پھل کی قیمتیں کم ہوں گی اور عام آدمی کو اِس کا فائدہ پہنچے گا۔ اجناس کی قیمتوں کا تعین کرنے میں منڈیوں کو جس انداز سے خودمختار بنایا گیا ہے اُس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح کو ضبط (کنٹرول) کرنے کی کوششیں بھی ناکام و ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں ہفتے وفاقی حکومت نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے مارکیٹ میں براہ راست مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا‘ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی افغانستان کیلئے سالانہ برآمدات کا حجم سال 2020ء کے دوران 870.86 ملین ڈالر رہا جبکہ سال 2020ء کے دوران پاکستان نے افغانستان سے 517.71 ملین ڈالر کی درآمدات کی تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ مہنگائی معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کررہی ہے وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے غذائی اشیائے ضروریات بشمول چینی‘ آٹا‘ دالوں کی قیمتوں میں
جزوی کمی لانے کیلئے مارکیٹ میں 3 طریقوں سے مداخلت کا فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے اور ایک عام آدمی (ہم عوام) کو اُسی وقت یقین آئے گا جب مذکورہ اشیا سستے داموں میسر ہوں گی۔ مارکیٹ مداخلت کیلئے یوٹیلیٹی سٹورز‘ اوپن مارکیٹ (منڈیوں) اور معاشرے کے کمزور طبقے کیلئے رعایت سبسڈی شامل ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایک کروڑ پچیس لاکھ مستحق گھرانوں کو خوردنی اشیا کی خریداری پر رعایت دی جائے جس کیلئے ایک کھرب روپے سے زائد مختص کئے گئے ہیں۔ اِس حکمت عملی کا اگر ماضی میں دی جانے والی رعایت سے موازنہ کیا جائے تو ماضی و حال کے درمیان فرق یہ ہے کہ ماضی میں دی جانے والی سبسڈی سے سرمایہ دار طبقات بھی فائدہ اُٹھاتے تھے جیسا کہ یوٹیلٹی سٹورز پر چینی اگر رعایتی نرخوں (سستے داموں) فروخت کی جاتی تھی تو سرمایہ داروں نے بھی یوٹیلٹی سٹورز سے خریداری کرنا شروع کر دی تھی جس کی وجہ سے غریب عوام کیلئے سبسڈی بڑے شہروں کے سرمایہ لوٹ لے جاتے تھے لیکن اب اُمید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جس ”سپورٹ پیکج“ کی منظوری دی گئی ہے اُس سے حقیقی مستحقین فائدہ اُٹھائیں گے۔