چین‘ یوم جمہوریہ: بے مثل ترقی کا سفر

چین کی آزادی اور ترقی کا سفر جس ایک فیصلے پر پختگی و سختی سے عمل کا نتیجہ ہے‘ اُس میں ’روایتی طرز ِحکمرانی‘ کو ’عوامی جمہوریہ‘ سے بدلا گیا جس کے بعد چین کے 72 سالہ سفر (یکم اکتوبر 1949ء سے یکم اکتوبر 2021ء) میں ’عوامی جمہوریہ چین‘ نے ایک سے بڑھ کر ایک سنگ ِمیل عبور کئے اور اُن کارہائے نمایاں میں سب سے اہم ”انتہائی غربت میں غیرمعمولی کمی“ ہے جبکہ حاصل مطالعہ چین کی قومی ترجیحاتی حکمت ِعملی کے 3 پہلو ہیں۔ 1: ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط بڑھانے کے نئے امکانات کی تلاش اور بہتر سے بہتر کی جستجو (جہد ِمسلسل)۔ اِن تینوں شعبوں اور امور میں قومی فیصلہ ساز کس حد تک کامیاب و کامران رہے اِس بات کا اندازہ چین کی ترقی کے اقتصادی اعشارئیوں سے متعلق اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ تعجب خیز ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ 2019ء سے دنیا کی ہر چھوٹی بڑی معیشت کورونا وبا کے دباؤ میں ہے لیکن چین کی سالانہ شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہے جو سالانہ 100کھرب یوآن تک جا پہنچی ہے اور چین میں فی کس اوسط آمدنی 10 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ ذہن نشین رہے چین کی کرنسی یوآن کا پاکستانی روپے سے شرح تبادلہ 31 اگست2021ء کے روز 25 روپے پچاس پیسے جبکہ 30 ستمبر 2021ء کے روز 26 روپے 25 پیسے رہا یعنی پاکستانی روپے کے مقابلے چین کی کرنسی کی قدر میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔چین کے موجودہ صدر ژی جن پنگ (Xi Jinping) نومبر 2012ء سے حکمراں جماعت چائنیز کیمونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور صدارتی عہدے فائز ہیں اور اِس عرصے میں پہلے دن انہوں نے 10 کروڑ (100ملین) لوگوں کو خط ِغربت سے بلند کرنے کے جس عزم کا اظہار (قوم سے وعدے کی صورت) کیا تھا اُسے عملاً پورا کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ اِنسانی تاریخ میں اِس جیسی ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ جہاں کسی قوم کے 98 فیصد غریبوں کی مالی حالت تبدیل ہو گئی ہو! ذہن نشین رہے کہ ’خط ِغربت‘ کسی ملک میں ایسے افراد کی تعداد کا تعین کرتا ہے جن کی یومیہ آمدنی 2.30 (ڈھائی) امریکی ڈالر یومیہ سے کم ہو۔ چین میں غربت اِس کے شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ تھی۔ چین نے پہلا کام یہ کیا کہ خط ِغربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد معلوم کرنے کیلئے عالمی پیمانے (ڈھائی ڈالر یومیہ آمدنی) کو مزید کم کر کے 1.90 ڈالر یومیہ آمدنی کے حساب سے آبادی کی تعداد معلوم کی اور دوسری خاص بات یہ رہی کہ غریبوں کو نقد مالی اِمداد دے کر مصنوعی طریقے سے خط ِغربت سے بلند نہیں کیا گیا بلکہ روزگار کی فراہمی اور ہنرمندی کے ذریعے اِنہیں معاشرے کا فعال رکن بنایا یعنی روزگار کی فراہمی سے معیشت و معاشرت کو مستحکم کیا۔ ذہن نشین رہے کہ ”یومیہ ایک اعشاریہ نوے امریکی ڈالر“ کا پیمانہ عالمی بینک کا وضع کردہ ہے جس کی پاکستانی روپے میں قدر قریب 327 روپے بنتی ہے یعنی ہر وہ شخص جس کی یومیہ آمدنی تین سو ستائیس روپے یا اِس سے کم ہے وہ ’خط ِغربت‘ سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ 1990ء میں 75 کروڑ (750 ملین) چینی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے جبکہ 2012ء میں یہ تعداد کم ہو کر 9 کروڑ (90ملین) ہو گئی اور 2016ء میں مزید کم ہو کر 72لاکھ (7.2 ملین) رہ گئی جو چین کی کل آبادی کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے یعنی چین کی کل آبادی کا صرف 0.5 فیصد خط غربت سے نیچے ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں 30 سال پہلے جو 74 کروڑ 50 لاکھ انتہائی غریب لوگوں رہتے تھے‘ اُن میں سے آدھ فیصد ہی انتہائی غریب رہ گئے ہیں۔ چین نے انتہائی غربت کم نہیں کی بلکہ اِس کا عملاً اِنسداد کیا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کے فیصلہ سازوں کو بالکل اُسی چین کے طوطے کی طرح سبق سیکھنا چاہئے جو ایک فرضی کہانی کا کردار ہے کہ پنجرے میں بند چین کے ایک طوطے کا پیغام سن کر کس طرح اُس کے ہم جنس نے قید سے رہائی حاصل کی اور اگر پاکستان کے قومی فیصلہ ساز متوجہ ہوں اور چین کی دوستی پر فخر اُور ناز کرتے ہوئے صرف یہ کہنے پر اکتفا نہ کریں کہ پاک چین دوستی سمندروں سے زیادہ گہرائی‘ ہمالیہ پہاڑی سلسلے سے زیادہ بلند و مضبوط اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو یقینا ایسا ہی ہوگا لیکن اصل چیز چین سے تعمیروترقی اور غربت کو شکست دینے کے اُس عمل کے مطالعے اور تجربے سے فائدہ اُٹھانا ہے جس نے چین کی حکمرانی کو جغرافیائی سرحدوں سے آزاد کیا ہے اور آج دنیا کی کوئی ایسی معیشت‘ کوئی ایسی ترقی اور کوئی ایسی سیاسی و سماجی حکمت ِعملی (لائحہ عمل) نہیں جس پر چین کے اثرات‘ چھاپ یا تحقیق و ترقی کا عمل دخل نہ ہو۔جون 2021ء میں مرتب کردہ عالمی اعدادوشمار جو کہ عالمی بینک کے مرتب کردہ ہیں کے مطابق سال 2021-22ء کے دوران پاکستان میں انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد 39.3 فیصد ہے جو سال 2022 میں بھی کم و بیش یہی رہے گی جبکہ موجودہ حکومت کی معاشی اصلاحات کا تسلسل رہا تو عالمی بینک کے مطابق سال 2022-23ء کے دوران انتہائی غربت زدہ افراد کی تعداد کم ہو کر 37.9فیصد ہو جائے گی۔ دعوت ِفکر ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی صداحترام قیادت اور باشعور عوام کو ’یوم ِجمہوریہ‘ کے موقع پر ڈھیروں ڈھیر مبارکبادیں اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے چین کی ترقی کے 3 بنیادی پہلوؤں (ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق و ترقی اور سرمایہ کاری۔ 2: پیداواری صلاحیت میں اضافے سے اِقتصادی نمو۔ 3: عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی اثرورسوخ اور تجارتی روابط کے نئے امکانات کی جستجو و تلاش) کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ چین نے علم و عمل کی بنیاد پر ترقی و ارتقا حاصل کیا ہے اُس میں اپنی زبان اور تاریخ و ثقافت کو فراموش نہیں کیا۔ چین کی کامیابیوں میں پاکستان کے دیرینہ مسائل (بحرانوں) اور انسداد ِغربت کا راز (حل) پوشیدہ ہے لیکن کوئی ہے کہ جو غور کرے؟