عجیب طرح سے خالی یہ دن گزرتے ہیں 

اب جب کہ بدلتی رتوں کے شب و روز ہیں تو یار لوگ زچ ہو رہے ہیں کیو نکہ ستمبر کا ستمگر مہینہ اپنی تمام تر حدتوں اور شدتوں کے ساتھ گزر چکا ہے مگر اکتوبر کے اوائل میں بھی موسم کی مکمل تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے ابھی گھروں میں جون جولائی کے موسم کی طرح پنکھے،ائیر کولر اور ائیر کنڈیشنڈ کی عمل داری قائم ہے،وہ جو ان بدلتے موسموں میں پہلے پہل راتوں میں خنکی بڑھ جا یا کرتی ہے وہ بھی ابھی تک تو کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ سورج بھی بدستور اپنی پرانی چال بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہا، یار لوگ اپنے دل کی بھڑاس سوشل میڈیا پر طرح طرح کے کٹیلے تبصرے کرکے نکال رہے ہیں اور ان کمنٹس میں گرمی کو ایسی خواتین قرار دیا جارہا ہے جو کسی گھر سے جانے کے لئے اجازت لینے کے بعد بھی گھنٹہ بھر دروازے میں کھڑے ہو کر باتیں کرتی جاتی ہیں، اسی سوشل میڈیا پر کوئی دو ڈھائی ہفتے پہلے کسی پوسٹ پر کمنٹس کرتے ہوئے میری ایک مہربان پروفیسر دوست نے کہا تھا کہ بس اب ایک دون میں جب اسوج شروع ہو گاتو موسم بدل جائے گا، ٹھنڈی ہوائیں چلیں گی تو جوابی کمنٹس میں دوست عزیز معروف شاعر و کالم نگار سعود عثمانی نے خوش ہو کر لکھا تھا اس کا مطلب بس اب گرمی کا بستر لپیٹنے کا وقت آ گیا ہے، دراصل اس دن بھادوں کے بادل اپنے آخری پھیرے میں مہرباں ہو کر خوب برس رہے تھے جس کی وجہ سے سے میری پروفیسر دوست کو یہ گمان گزرا تھا کہ بس اب گرمی کا زور ٹوٹ گیا ہے،تب میں نے دخل در معقولات کرتے ہوئے سعود عثمانی کو بتایا تھا کہ اس خوش فہمی میں نہ رہے‘ پروفیسر جی نے تو کہہ دیا اور خوش گمانی اچھی چیز ہے مگر اسوج کا مہینہ سوشل میڈیا کے کمنٹس نہیں پڑھ پائے گا اور وہ اپنی ہی چال چلے گا اور پھر میں نے کچھ پشتو ضرب المثال کا ترجمہ کرتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مہینے میں گرمی اور حبس بڑھنے کے بہت امکانات ہوتے ہیں راتیں قدرے خنکی والی ہوتی ہیں مگر دن کو سورج کی تپش اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ ساون بھادوں کی بارشوں سے فضا دھل کر آلودگی سے پاک ہو جاتی ہے اور سورج کی کرنیں بغیر کسی رکاوٹ کے براہ راست زمین پر پڑتی ہیں اس لئے اسوج کی دھوپ میں کھڑے رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اس لئے ہماری مہربان پروفیسر دوست کی خوش گمانی سے کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، اس پر پروفیسر نے مجھے جواب دیا، کہ خود تو پشاور کے خوشگوار موسم کے مزے لے رہے ہیں اور دوستوں کو ڈرا رہے ہیں، میں نے کہا کہ حاشا میرا مطلب یہ نہیں تھا مجھے اسوج کے مہینے سے بھی کوئی شکایت نہیں بلکہ جب تک میں گاؤں میں تھا تو اس خوبصورت مہینے کے رومینس سے لطف اندوز ہوتارہتا تھا اور مجھے نہیں بھولتا کہ کھیتوں کھلیانوں میں صبح دم جب نرم اور خنکی بھری ہوائیں چلتیں اور پرندوں کی مستی بھری اڑانیں اور آوازیں دل میں عجب ہلچل مچایا کرتی تھیں اور یقینا برصغیر کے طول و عرض میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں یہ مہینہ فصلوں خصوصاً باجرے کے فصل کے پکنے کے حوالے سے ایک میلہ کا سا سماں باندھ دیتا ہے مگر ہم ان علاقوں سے دور بھی ہیں اور پھر شہروں کے مکین ہیں ہمارے روز و شب اب اور کہانیاں بننے لگے ہیں اس لئے موسموں کے بارے میں کتابوں میں جو لکھا ہے وہ سچ ہی ہے تاہم یہ سارے اور خاص طور پر ہمارے علاقوں کے حوالے پورا سچ نہیں ہے، ہماری اپنی دیہاتی بصیرت جو کہانی سناتی ہے وہی اصل حقیقت ہے،شہروں میں تو ہمیں چاند کے عروج و زوال کے منظر بھی کم کم بلکہ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتے ہیں، یہاں کی راتوں میں شب ماہتاب اور اماوس میں کوئی فرق نہیں ہو تا، یادش بخیر میں نے اپنے پی ٹی وی کے ایک ڈرامہ ”زندگی‘‘ کے ایک سین میں ماں بیٹے کا مکالمہ کچھ یوں لکھا تھا، اور یہ اس بیٹے کا مکالمہ تھا جس کا باپ دیار غیر جا چکا تھا اور چھوٹا بیٹا اپنے باپ کو بہت ’’مس“ کر رہا ہو تا ہے تو اس سین میں وہ کھڑکی کے پاس کھڑا ہوتا ہے اور اس کے’’اوور د ی شولڈر“ چودھویں کا چاند دکھائی دے رہا ہوتا ہے تو اس کی ماں اس کے پاس آکر اس سے پوچھتی ہے کہ یہاں کیا کرہے ہو جس کے جواب میں بیٹا کہتا ہے ”میں چاند کو دیکھ رہا ہوں“ ہوسکتا ہے کہ اس وقت پاپا بھی چاند کو دیکھ رہے ہوں تومزہ آجائے“ یہ سن کر اس کی ماں اسے اپنے سینے سے لگا کر کہتی ہے، ”بیٹا باہرکی دنیا میں زمین کے اتنے کام ہوتے ہیں کہ کسی کو آسمان کی طرف دیکھنے کی کہاں فرصت ملتی ہے۔ چلو سو جاؤ“ بس یہی حال شہروں کے باسیوں کا ہے عید رمضان کے علاوہ کسی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کب نیا چاند نکلا اور کب پہلے پندرواڑہ (شکل پکش) گزرا اور چاند پورا ہوا اور کب قمری مہینے کا دوسرا پندرواڑہ (کرشن پکش) شروع ہوا اور چاند نہ صرف گھٹنے لگتا ہے بلکہ پہلے کے برعکس اس پندرواڑہ میں بہت دیر سے طلوع ہوتے ہوتے اماوس کی رات بالکل غائب ہوگیا،، اس لئے اسوج کی سارے ہنگامے دراصل ہمارے سوہنے دیہات کی بہاریں ہیں اب تو خیر وہاں بھی پہلے بجلی اور پھر الیکٹرانک میڈیا نے ان دیہات کا مزاج قدرے بدل دیا ہے اس لئے اب تو دریا کنارے شام گزارنا یا تاروں کی چھاؤں میں یاروں کی منڈلیاں خواب و خیال ہونے لگی ہیں، 
 یہ گاؤں بھی اب زرد ہواؤں کی ہیں زد میں 
 شہروں میں تو صدیوں سے یہ دکھ پلتے رہے ہیں 
 الغرض اب جب کہ بدلتی رتوں کے شب و روز ہیں تو یار لوگ زچ ہو رہے ہیں کیو نکہ ستمبر کا ستمگر مہینہ اپنی تمام تر حدتوں اور شدتوں کے ساتھ گزر چکا ہے مگر اکتوبر کے اوائل میں بھی موسم کی مکمل تبدیلی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے، اور سوچتا ہوں کیا اسوج کا مہینہ پندرہ اکتوبر تک یوں ہی اپنی د ل کی چال برقرار رکھے گا یا کہیں سے بادل سمیٹ کر کالی گھٹاؤں کو راستہ بھی دے گا جس کے بعد راتوں کی خنکی بڑھ جائے گی اور پھر کہیں سے آواز آئے گی کہ اس رم جھم سے گرمی کا زور ٹوٹ جائے گا تب میں بھی اس آواز میں اپنی آواز شامل کر دوں گا لیکن، سر دست تو مجھے موسم کی صورت حال میرے اس شعر کی طرح لگ رہی ہے۔
 عجیب طرح سے خالی یہ دن گزرتے ہیں 
 خبر بھی کوئی نہیں یار ِ بے خبر بھی نہیں