وفاقی حکومت نے ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کے استعمال کو سنگین جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے تجویز پیش کی ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کرنے والے موٹرسائیکل سواروں کوایک ہزار روپے، کار ڈرائیوروں کوایک ہزار پانچ سو روپے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کو 2 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ موبائل فون پر ایس ایم ایس کرنا، کال کرنا، کال وصول کرنا، وائس میسج بھیجنا اور وڈیو بنانا خلاف قانون تصور کیاجائے گا۔ایک سروے کے مطابق ملک میں ماہانہ ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعدادکورونا، کینسر، یرقان، گردوں کے امراض، ٹائیفائیڈ،امراض قلب اور دیگر بیماریوں میں جاں بحق کی تعداد سے دوگنی ہے۔ ٹریفک حادثات کی اہم وجوہات میں ڈرائیوروں کا موبائل فون استعمال کرنا، موسیقی سننا، نشہ کرنا، ٹریفک قوانین سے نابلد ہونا، تیز رفتاری، گاڑیوں میں نقص اور رات کے وقت سفر کرناشامل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران اٹھارہ ٹریفک حادثات میں 25افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ بیس افراد شدید زخمی ہوئے ہیں ان میں سے بارہ افراد کے زندگی بھر کے لئے معذور ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور اور اسلام آباد سے چترال کے لئے صرف رات کے وقت گاڑیاں جاتی ہیں کھلی سڑکوں پر تیز رفتاری سے گاڑی چلانے سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں۔ تنگ اور دشوار پہاڑی راستوں پر رات کے وقت ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈرائیوروں پرنیند کے غلبے کی وجہ سے غنودگی طاری ہونا فطری امر ہے اور زیادہ تر حادثات ڈرائیوروں کی آنکھ لگنے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ حکومت کورونا اور پولیو پر قابو پانے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کر رہی ہے، جذام، ذیابیطس اور دیگر امراض کے علاج کے لئے الگ ہسپتال بنائے جارہے ہیں لیکن سب سے زیادہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب ٹریفک حادثات کم کرنے پر خاطر خواہ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ موٹر وے سمیت شاہراہوں کے کنارے 70سے زائد اقسام کے سائن بورڈ ز لگے ہوتے ہیں ان میں کچھ گول، کچھ چوکور اور کچھ تکون ہوتے ہیں۔ 44سائن بورڈز ان قوانین سے متعلق ہیں جن کی خلاف وزری پر جانی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے جبکہ 32نشانات وہ ہیں جن کی خلاف ورزی پر ڈرائیور گرفتار اور گاڑی سرکاری تحویل میں لی جاسکتی ہے۔ 24سائن بورڈز میں پلوں، دریاؤں، نہروں، سکولوں، ہسپتالوں اور شہری آبادی کی نشاندہی ہوتی ہے‘ ان نشانات کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں سے گذرتے ہوئے رفتار کم کی جائے تاکہ جانی نقصان سے بچا جاسکے۔ سڑک پر دو سفید یا پیلے رنگ کی لکیریں ہوتی ہیں۔ انتہائی بائیں جانب کا حصہ سست رفتار گاڑیوں، درمیانی حصہ عام ٹریفک کے لئے مختص ہوتا ہے۔ ان ٹریفک نشانات کے بارے میں 80فیصد ڈرائیوروں کو علم ہی نہیں ہوتا۔ٹریفک حادثات اور اس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکنے کیلئے ضروری ہے کہ موٹر سائیکل سواروں سے لے کر موٹرکار، سوزوکی، لوڈر، ٹریکٹر، ٹرالی، ٹرک اور ہیوی گاڑیاں چلانے والوں کو لائسنس کے اجراء سے قبل ٹریفک قوانین کا امتحان پاس کرنے کا پابند بنایاجائے اورحادثے میں غلطی ثابت ہونے اورجانی نقصان پر لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کاڈرائیور کو پابند بنایاجائے۔