بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ پر ان کے حامی جشن منانے میں مصروف ہیں کہ وہ بھارت کاوقار مزیدبلند کرکے لوٹے ہیں اس پر بات کرنے سے پہلے یہ واضح کرناضروری ہے کہ بھارت میں ہندوتوا کے علمبرداروں کی گرفت بتدریج مضبوط تر ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ ہرگذرتے د ن کے ساتھ قیام پاکستان کے لئے خود تاریخ و حالات کے ذریعہ ہی جواز فراہم ہوتے جارہے ہیں قوم پرست اور بعض مذہبی جماعتیں ہمیشہ سے قیام پاکستان کے حوالہ سے اپنے اپنے ذہن کے مطابق شکوک پیدا کرنے میں مصروف رہتے ہیں حتیٰ کہ قیام پاکستان کو انگریزوں کی سازش تک قراردینے سے بھی نہیں چوکتے مگر اس وقت بھارت کے مسلمان جس کرب سے گذررہے ہیں اس سے بانی پاکستان کے ان تمام خدشات کو تقویت ملتی جارہی ہے جن کااظہار وہ متحدہ ہندوستان میں کانگریس کی بالادستی کے تناظر میں کرتے رہتے تھے ہندو مسلم اتحاد کاسب سے بڑا سفیر اگر ہندوؤں سے الگ وطن کے قیام کے مطالبہ پرمجبور ہوا تھا تو اس کے مضمرات بھی موجود تھے جن کاادراک اس وقت شاید صرف محمد علی جناح ہی کرپائے تھے کانگریس تو پھر بھی سیکولر ازم کی دعویدار رہی ہے تاہم اس کے دو ر میں بھی بھارتی مسلمانوں کا جو حشر ہوتارہاہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا مگر جب سے ہندوانتہاپسند اقتدار میں آئے ہیں بھارت کی زمین مسلمانوں کے لئے جہنم بنائی جارہی ہے اورپھر گزشتہ سات برسوں میں مودی نے جس طرح اکثریتی بالادستی پر مبنی نفرت وتشدد کی سیاست کو رواج دیا اورہر موضوع کو ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی اس میں سب سے بڑا ہاتھ مودی کے خوشامدی ٹولے،فیک نیوز فیکٹری، واٹس ایپ یونیورسٹی اور کَٹ اینڈ پیسٹ انڈسٹری کا رہا ہے جسے مودی اور حکومت پر ہونے والی تنقید ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ یہی حال بی جے پی کے اْن لیڈروں کا ہے جو مودی کو بھارتی تاریخ کا سب سے طاقتور لیڈر بنانے اور بھگوان کا درجہ دینے پر تْلے ہیں بھارت کے مسلم پریس کے مطابق مودی کا سب سے بڑا اثاثہ زور ِ خطابت ہے۔ وہ ایک اچھے ایکٹر اور مارکیٹنگ و پیکیجنگ منیجر بھی ہیں۔ گاہک دیکھ کر پْڑیا باندھنے اور سانپ کی طرح کینچلی بدلنے کا ہنر آتا ہے بھارت کا وزیراعظم بننے اور مسلم دشمن شبیہ بدلنے کے لئے انہوں نے کیا جتن نہیں کئے لیکن وزیراعظم بننے کے بعد اپنی اصلیت پر آگئے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب مسلمان اور مسلم خواتین انتہاپسندانہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف پْرامن مظاہروں اور دھرنوں کا حصہ بنیں تو انہیں غدار اور پاکستانی ایجنٹ کہا گیاکانگریس کی خستہ حالی کے بعد الیکشن جیتنے کے لئے مودی کے پاس مسلم دشمنی کا واحد تیربہدف نسخہ بچا تاہم مغربی بنگال کے الیکشن میں وہ بھی کام نہ آیا اگر مودی اوران کے بھکتوں کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی زعم ہے تو انہیں چاہئے کہ ایک الیکشن مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کے بغیر لڑیں، آٹے دال کا بھاؤمعلوم ہوجائے گا مودی نے اپنے دور میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کی بازگشت بیرونِ ملک بھی سنی گئی۔ بین الاقوامی میڈیا نے مسلم دشمنی میں شدت اور کووڈ سے نمٹنے میں ناکامی کے لئے براہ راست مودی کی خودسَری کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مودی کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے اسیر ہیں جو اپنے آگے کسی کی سنتے ہیں نہ کسی کو سمجھتے ہیں۔ وہ شخصیت پرستی اور خوشامدپسندی کے خْوگر ہیں دورہ امریکا کے لئے اس نے خوب تیاریاں تو کی تھیں تاہم یہ وہی مودی ہے جس نے امریکہ میں مقیم بھارتی باشندوں کے جلسے میں ’’اب کی بارٹرمپ سرکار“ کا نعرہ دیا تھا۔ صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی شکست مودی کے لئے یقیناً جھٹکا ثابت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ دونوں دائیں بازو کے نظریات کے حامل ہیں جبکہ موجودہ صدربائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ٹرمپ کے الٹ واقع ہوئے ہیں۔ دونوں کثرت میں وحدت اور جمہوری اقدار کے قائل اور تنگ نظری اور نفرت کی سیاست کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن نے منصب سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے کئی احکامات منسوخ کردیئے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ٹرمپ کو مودی کی کْھلی حمایت ان دونوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کو چبھی ہوگی بھار ت میں بڑھتی عدم روا داری،مسلمانوں کے خلاف نفرت اور مذہبی تشدد بھی کسی سے چھپا نہیں۔ سابق امریکی صدر اوبامہ نے ایک نہیں دوبار ’مودی کی توجہ اس پر مبذول کی تھی اِسی طرح کووڈٹوکی پیشگی اطلاع کے باوجود اس سے نمٹنے میں مودی حکومت کی کوتاہی وناکامی کو ساری دنیا نے دیکھا۔ جس وقت آلات وادویات اورانجکشنوں کی کمی لاکھوں مریضوں کی جان لے رہی تھی اس وقت مودی اور اس کے چمچے بنگال کی انتخابی مہم میں کووڈ پروٹوکول کی پروا کئے بغیر ہزاروں کی بھیڑ سے ووٹ کی اپیل کررہے تھے اور ہری دوار کے کمبھ میلے میں لاکھوں زائرین گنگا میں ڈبکی لگارہے تھے۔ اس پر بین الاقوامی اور بالخصوص امریکی میڈیا نے مودی کی خوب خبر لی تھی۔ان حالات میں یہ امید رکھنا کہ امریکہ میں مودی کا شایان شان استقبال کیاجائے گا، خام خیالی تھی ورنہ کیا بات ہے کہ نیوزپورٹلوں کے مطابق امریکی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد حکومت کا کوئی بڑا سرکار ی عہدیدار ان کے استقبال کو نہیں آیا۔ ایسا ہی منظر وہائٹ ہاؤس پر دیکھنے کو ملا۔ بائیڈن نے مودی کے سواگت کی زحمت کی نہ انہیں رخصت کرنے آئے بھارتی نیوزچینلوں نے تو ان مناظر کو بار بار دکھایا جس میں مودی سے ہاتھ ملانے کیلئے پارٹی کارکنوں کی بھیڑ موجود تھی لیکن نیوز پورٹل کی اس کلپ کو گول کرگئے جس میں وہائٹ ہاؤس کے قریب کھڑے لوگ ہاتھوں میں ’مودی گو بیک‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ رہی سہی کسر کملا ہیرس اور بائیڈن نے پوری کردی۔ ملاقات کے دوران کملا ہیرس نے مودی کو جمہوریت کا سبق پڑھایا اور امید ظاہر کی کہ وہ ہندوستان میں جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے اورجمہوری اداروں کو بااختیار بنانے پر توجہ دیں گے مودی کی ایک عجیب عادت سب نے دیکھی اور محسوس کی ہوگی کہ وہ عالمی سطح کے لیڈروں سے ایسا ٹوٹ کر بغلگیر ہوتے ہیں جیسے برسوں کا یارا نہ ہو، بائیڈن نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ان حقائق کی روشنی میں بی جے پی لیڈروں کا دورے کو کامیاب بتاکر دہلی ایئر پورٹ کے باہر ڈھول تاشے کے ساتھ مودی کا استقبال کرنا، اْن پر پھول برسانا سمجھ سے باہر ہے۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ عقلمندوں کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ بائیڈن اور کملا ہیرس نے اشاروں اشاروں میں ہندو توا وادیوں کی دْکھتی رگ پر اْنگلی رکھ دی ہے لیکن جس ذہنیت کے حامل یہ لوگ ہیں اس کے بعد ان سے کسی بھی دانشمندی کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔