اصل خطرہ

وزیراعظم عمران خان نے قوم کو نوید سنائی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی لہر عارضی ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کی رفتار تیز ہونے سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں جلد کمی آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کے ایک فیصد لائن لاسز سے ملک کو کئی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری بجلی کی ترسیلی لائنز بہت پرانی ہوچکی ہیں، تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں خاص طور پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے لائن لاسز بہت زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے ہم بجلی ہوتے ہوئے بھی صارفین تک نہیں پہنچا سکتے، جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ کرنی پڑتی ہے اور عوام کو تکلیف ہوتی ہے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سی پیک کا آغاز بجلی کی پیداوار سے ہوا، جس میں پہلے سڑکوں کی تعمیر اور پھر ٹرانسمیشن کے منصوبے شامل کیے گئے،بڑے منصوبوں میں بیرونی سرمایہ کاری آئے گی توملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے ملک کے وسائل میں اضافہ ہوگااور ہم بیرونی ملکی قرضے اتار سکیں گے،غربت میں کمی آئے گی اور ملک خوشحال ہوگا۔ کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی رسدی زنجیریں متاثر ہوئیں اوردنیا کے دیگر ملکوں کی طرح  پاکستان میں بھی اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بڑھ گئیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی عالمگیر وباء نے دنیا کی سیاست، معیشت، معاشرت اور تجارت سمیت تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کی وجہ سے گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس سے ہر چیز کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا عالمی بحران سے شدید متاثر ہونا فطری امر ہے۔ تاہم ہمارے ہاں کچھ عوامل ایسے ہیں جو مہنگائی میں غیر معمولی اضافے کا باعث بن گئے ہیں۔ جن میں کرپشن اور بعض سرکاری اہلکاروں کی فرائض سے غفلت اور لاپراہی کو بھی بڑا دخل ہے۔ملک میں مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی اور مجسٹریسی نظام کے خاتمے کی وجہ سے پرائس کنٹرول کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں۔ مختلف سرکاری محکمے اپنے طور پر چھاپہ مار کاروائیاں ضرور کرتے ہیں مگر ان کاروائیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی، ملاوٹ  اورذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے  وفاق کی طرف سے بار بار یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا دراصل صوبائی معاملہ ہے۔ مگر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ وفاق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ اوریہی مہنگائی کے اصل محرکات ہیں پھر صوبائی حکومتیں کیسے مہنگائی پر قابو پائیں۔حکومت نے تعمیراتی شعبے کو ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا۔ گھروں کی تعمیر کیلئے بینکوں سے لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے بھی فراہم کئے جارہے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی سستے گھروں کی سکیم شروع کی گئی ہے۔ تعمیراتی شعبے میں کام تیز ہونے کی وجہ سے سیمنٹ، سریے، ریت، بجری، اینٹ، بلاک، تعمیراتی لکڑی اور دیگر سامان کی قیمتوں میں کمی آنے کے بجائے ہر چیز کی قیمت میں چالیس سے پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔  حکمران قیادت کو ضرور یہ احساس ہوگا کہ موجودہ حکومت کی سیاسی بقاء کا دارومدار مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مہنگائی کے خلاف عوام سڑکوں پر ابھی تک نہیں آئے۔ مگرعام آدمی کی حالت نہایت دگرگوں ہے۔ اگر اسے ریلیف نہ ملا تو آنے والے الیکشنز میں اس کے اثرات واضح نظر آئیں گے۔