پہلا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات کی علمی قابلیت اور ذہنی اہلیت جانچنے کے ایک سے زیادہ معیار مقرر ہیں اور اِن دونوں معیارات کی کسوٹی پر پورا اُترنے والوں کو ہی ’ایم بی بی ایس‘ یا ’بی ڈی ایس‘ میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی اہلیت جانچنے کا ایک معیار‘ ایک پیمانہ اور ایک امتحان کیوں کافی نہیں ہو سکتا؟دوسرا نکتہ: ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کے نام سے طلبہ کی اہلیت جانچنے کیلئے خصوصی امتحان میں کامیابی کیلئے 65 فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی ہے جبکہ اِس سے قبل (گزشتہ برس) یہ معیار 60 فیصد مقرر تھا۔ کامیابی کیلئے اِس قدر بلند شرح سے نمبرات حاصل کرنا کیوں لازم ہے اور یہ معیار پچاس فیصد یا اِس سے کم کیوں مقرر نہیں ہونا چاہئے؟ تیسرا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے کسی خواہشمند طالب علم کیلئے ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب ہونا لازم ہے اگر کوئی طالب علم ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے تو اُسے نہ تو اپنے امتحانی پرچہ جات کی جانچ پڑتال (rechecking) کا موقع دیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ اپنا ایک تعلیمی سال ضائع کئے بغیر ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان دوبارہ دے سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایم ڈی کیٹ کے پرچہ جات طلبہ کی تسلی و تشفی کیلئے نہیں دکھائے جاتے اور اُنہیں اپنے نمبر بہتر بنانے کا فوری موقع (سپلمنٹری ایگزیم) بھی نہیں دیا جاتا؟ چوتھا نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان کیلئے سوالنامہ قومی سطح پر تیار کیا جاتا ہے اور اِس مقصد کیلئے پورے ملک میں ’ایف ایس سی (بارہویں کلاس)‘ کی سطح پر پڑھائے جانے والے مضامین (نصابی کتب) سے سوالنامہ تیار کیا جاتا ہے۔ اِس امتحانی حکمت ِعملی کی وجہ سے اکثر طلبہ ’آؤٹ آف کورس‘ یعنی وہ اپنے زیرمطالعہ رہے نصاب ِتعلیم سے ہٹ کر داغے گئے سوالات کی شکایت کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ہر صوبے اور ہر امتحانی بورڈ کے طلبہ کیلئے اُن کے ہاں پڑھائے جانے والے نصاب سے ’ایم ڈی کیٹ‘ کا سوالنامہ تیار کیا جائے؟پانچواں نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ میں 65فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو ناکام (fail) قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہی”فیل“ قرار دیئے جانے والے طلبہ کی بڑی تعداد بیرون ملک تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے جہاں اُنہیں داخلہ حاصل کرنے کیلئے نہ صرف اہل سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہیں خصوصی تعلیمی وظائف (سکالرشپس) بھی دیئے جاتے ہیں اور تعلیمی مراحل امتیازی حیثیت سے مکمل کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کی اہمیت اور ضرورت صرف پاکستان کی حد تک ہے اور اِس سے کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت یا ذہنی اہلیت اور رجحانات کا اندازہ لگانا درست نہیں اور اصلاح طلب ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحانی نظام پر نظرثانی کی جائے۔چھٹا نکتہ: بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ کے ساتھ نہ صرف ذہانت بلکہ خطیر اور قیمتی زرمبادلہ بھی جاتا ہے جبکہ پاکستان میں طب کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں حسب طلب و ضرورت نشستوں کی تعداد میں اضافہ مطالبات کے باوجود بھی نہیں کیا جا رہا۔ ہر سال پہلے سے زیادہ طلبہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا امتحان دیتے ہیں اور ہر سال ہی پہلے سے زیادہ طلبہ کو داخلہ نہ ملنے کی صورت مایوسی ہوتی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ اہلیت و ذہانت ہونے کے باوجود بھی طب کی تعلیم کے مواقعوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ ساتواں نکتہ: پاکستان میں طب کی تعلیم میں یکساں اہم کردار نجی تعلیمی اداروں کا ہے‘ جنہوں نے اِس شعبے میں مالی وسائل سے سرمایہ کاری کے علاؤہ ذہین ترین اور قابل اساتذہ کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ نجی کالجوں کے درمیان پائے جانے والے مقابلے کے ماحول میں اُنہیں فوقیت (داخلہ لیتے وقت دوسروں پر ترجیح) دی جائے لیکن حکومت کی جانب سے نہ تو نجی اداروں کی سرمایہ کاری کو تحفظ حاصل ہے‘ نہ اِنہیں بلاسود قرضہ جات دیئے جاتے ہیں تاکہ یہ مالی بحران سے نکلنے اور اپنی خدمات کے معیار کو بلند کرنے میں مزید سرمایہ کاری کریں۔ کورونا وبا نے طب کے سبھی نجی اداروں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے‘ جن کی مدد بارے حکومت نے دو سال سے تاحال کوئی پالیسی نہیں دی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت طب کے نجی تعلیمی اداروں کی خدمات کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن اِن کی سرپرستی نہیں کی جاتی؟آٹھواں نکتہ: طب (میڈیکل و ڈینٹل) کے نجی تعلیمی اداروں کو جامعات کا درجہ دینے اور اُن کے ہاں نشستوں کی تعداد (زیرتعلیم طلبہ کی گنجائش) بڑھانے میں بھی متعلقہ منتظم حکومتی ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) اور سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز دلچسپی نہیں لے رہے۔ تعلیم کے شعبے میں مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خصوصی حکمت ِعملی وضع کیوں نہیں کی جاتی؟نواں نکتہ: اٹھارہویں آئینی ترمیم (سال 2010ء) سے لاگو ہے جس کا بنیادی نکتہ صوبائی خودمختاری کی صورت فیصلہ سازی میں وفاق کے بوجھ کو کم کرنا ہے لیکن طب کی تعلیم کے منتظم ادارے کے حوالے سے معاملہ برعکس ہے۔دسواں نکتہ: طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم اندرون یا بیرون ملک حاصل کرنے والوں کو مساوی تصدیق نامے (رجسٹریشن) جاری کی جاتی ہے جبکہ دونوں قسم کے تعلیمی بندوبست میں علمی و عملی نصاب کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔