مذاکرات ہی تنازعات کا حتمی حل

حکومت نے پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسداری کی شرط پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات کا کہناہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گرو ہوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جوپاکستان کے ساتھ اپنی وفا کا عہد نبھانا چاہتے ہیں، حکومت کوایسے لوگوں کو یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں، ریاست پاکستان نے آگ اور خون کے دریا پار کئے ہیں ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دی ہیں، ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کو مکمل طور پر ختم کیا،اب پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور پرعزم ہے، اب آگے چلنے کی ضرورت ہے۔وزیراطلاعات کا کہنا ہے کہ ریاست کی پالیسیاں ایک مخصوص پس منظر اورمخصوص حالات میں بنتی ہیں بلوچستان میں 3ہزار سے زیادہ ناراض لوگ بھارت کا آلہ کار بن کر اپنے ملک کے خلاف ہوگئے تھے وہ اب توبہ تائب ہوکر واپس آچکے ہیں،شدت پسند گروپوں میں موجودہ جو لوگ صلح جو،امن پسند اورملکی دستور کو تسلیم کرنے کا عہد کرتے ہیں انہیں قومی معاشرتی دھارے میں آنے کا حق حاصل ہے۔ حکومت آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ناراض لوگوں کوراہ راست پر آنے کا موقع فراہم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں، خون خرابے اور محاذ آرائی سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔ قوموں کے درمیان برسوں جنگیں ہوتی رہی ہیں اور بالاخر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تصفیے ہوگئے۔ گذشتہ ایک سو سال کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تودنیا نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور آخر کار بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے جنگوں کا خاتمہ ہوگیا۔ امریکہ نے جاپان کے شہر ناگاساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جن کے اثرات آج بھی وہاں دیکھے جاسکتے ہیں دونوں شہروں میں آج 76سال بعد بھی تابکاری کے اثرات کی وجہ سے اکثر بچے معذور پیدا ہوتے ہیں۔جس ملک نے جاپان پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کیاتھا وہی ملک آج جاپان کا سب سے بڑا تجارتی اتحادی ہے اور اس کی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی امریکہ انجام دے رہا ہے۔ ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی سمیت جو بھی شدت پسند گروپ بیرونی قوتوں کا آلہ کار بن کر ریاست پاکستان کے خلاف اب تک برسرپیکار رہے ہیں انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔اگر وہ آج پاکستان کی وفاداری کا عہد اٹھانا چاہتے ہیں تو یہ ان قوتوں کی شکست ہے جو انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اگر انہیں قبول کرنے کے بجائے ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ دشمن کے عزائم کی تکمیل کیلئے خود کو دوبارہ وقف کریں گے اور قومی مفادات کو نقصان پہنچائیں گے۔ یقیناً یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر حکومت، اپوزیشن اور عسکری قوتوں میں اتفاق اور یک جہتی ضروری ہے۔ قومی سلامتی کے معاملے پر سیاسی دکان چمکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ اور ٹھنڈے دل سے معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کے بعد ایک متفقہ قومی بیانیہ ترتیب دینا چاہئے۔امریکہ جیسی سپر طاقت لامتناہی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکا اور انہوں نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرکے اپنی فوجیں افغانستان سے واپس بلالیں۔یہ وہی طالبان ہیں جنہیں امریکہ نے اسامہ کو پناہ دینے کے جرم میں سزا دینے کی ٹھانی تھی بیس سال تک ان سے جنگ لڑی اور کھربوں ڈالر لٹانے کے بعد انہی طالبا ن سے امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگیا۔